حضرت امام موسی کاظم عليه السلام



          مدینہ میں ٹہرنے Ú©Û’ بعد انہوں Ù†Û’ امام موسی کاظم علیہ السلام Ú©Û’ وہاں آناجاناشروع کیا،مدائنی کابیان ہے کہ ایک شب کوبارش ہورہی تھی اورمیں اس وقت امام علیہ السلام Ú©ÛŒ خدمت میں حاضرتھا، تھوڑی دیرکے بعد آپ Ù†Û’ فرمایاکہ اے عیسی تم فورااپنے مکان Ú†Ù„Û’ جاؤکیونکہ ”انہدم البیت علی متاعک“ تمہارامکان تمہارے اثاثہ پرگرگیاہے اورلوگ سامان نکال رہے ہیں یہ سن کرمیں فورامکان Ú©ÛŒ طرف گیا، دیکھاکہ گھرگرچکاہے اورلوگ سامان نکال رہے ہیں،دوسرے دن جب حاضرہواتوامام علیہ السلام Ù†Û’ پوچھاکہ کوئی چیزچوری تونہیں ہوئی ،میں Ù†Û’ عرض Ú©ÛŒ صرف ایک طشت نہیں ملتا جس میں وضو کیاکرتاتھا، آپ Ù†Û’ فرمایاوہ چوری نہیں ہوا،بلکہ انہدام مکان سے پہلے تم اسے بیت الخلاء میں رکھ کربھول گئے ہو،تم جاؤاورمالک Ú©ÛŒ Ù„Ú‘Ú©ÛŒ سے کہو،وہ لادے گی، چنانچہ میں Ù†Û’ ایساہی کیا اورطشت مل گیا(نورالابصارص Û±Û³Ûµ) Û”

          علامہ جامی تحریرفرماتے ہیں کہ ایک شخص Ù†Û’ ایک صحابی Ú©Û’ ہمراہ سو دینارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام Ú©ÛŒ خدمت میں بطورنذرارسال کیاوہ اسے Ù„Û’ کرمدینہ پہنچا، یہاں پہنچ کراس Ù†Û’ سوچاکہ امام Ú©Û’ ہاتھوں میں اس جاناہے لہذا پاک کرلیناچاہئے وہ کہتاہے کہ میں Ù†Û’ ان یناروں کوجوامانت تھے شمارکیا تووہ نناوے تھے میں Ù†Û’ ان میں اپنی طرف سے ایک دینارشامل کرکے سوپورا کردیا،جب میں حضرت Ú©ÛŒ خدمت میں حاضرہواتوآپ Ù†Û’ فرمایاسب دینارزمین پرڈال دو،میں Ù†Û’ تھیلی Ú©Ú¾Ùˆ Ù„ کرسب زمین پرنکال دیا ØŒ آپ Ù†Û’ میرے بتائے بغیراس میں سے میرا وہی دینارجومیں Ù†Û’ ملایاتھا مجھے دیدیا اورفرمایا بھیجنے والے Ù†Û’ عددکالحاظ نہیں کیا بلکہ وزن کالحاظ کیاہے جو Û¹Û¹ میں پوراہوتاہے۔

          ایک شخص کاکہناہے کہ مجھے علی بن یقطین Ù†Û’ ایک خط دے کرامام علیہ السلام Ú©ÛŒ خدمت میں بھیجا،میں Ù†Û’ حضرت Ú©ÛŒ خدمت میں پہنچ کر ان کاخط دیا، انہوں Ù†Û’ اسے Ù¾Ú‘Ú¾Û’ بغیرآستین سے ایک خط نکال کرمجھے دیااورکہا کہ انہوں Ù†Û’ جوکچھ لکھاہے اس کایہ جواب ہے (شواہدالنبوت ص Û±Û¹Ûµ) Û”

          ابوبصیرکابیان ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام دل Ú©ÛŒ باتیں جانتے تھے اورہرسوال کاجواب رکھتے تھے ہرجاندارکی زبان سے واقف تھے (روائح المصطفی ص Û±Û¶Û²) Û”

          ابوحمزہ بطائنی کاکہناہے کہ میں ایک مرتبہ حضرت Ú©Û’ ساتھ حج کوجارہاتھا کہ راستہ میں ایک شیربرآمدہوا،اس Ù†Û’ آپ Ú©Û’ کان میں Ú©Ú†Ú¾ کہاآپ Ù†Û’ اس کواسی Ú©ÛŒ زبان میں جواب دیااوروہ چلاگیا ہمارے سوال Ú©Û’ جواب میں آپ Ù†Û’ فرمایا کہ اس Ù†Û’ اپنی شیرنی Ú©ÛŒ ایک تکلیف Ú©Û’ لیے دعاکی خواہش کی، میں Ù†Û’ دعاکردی اوروہ واپس چلاگیا(تذکرة المعصومین ص Û±Û¹Û³) Û”

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے اخلاق وعادات اوشمائل واوصاف

          علامہ علی نقی لکھتے ہیں کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اس مقدس سلسلہ Ú©ÛŒ ایک فردتھے جس کوخالق Ù†Û’ نوع انسانی Ú©Û’ لیے معیارکمال قراردیاتھا اسی لیے ان میں سے ہرایک اپنے وقت میں بہترین اخلاق واصاف کامرقع تھا ،بےشک یہ حقیقت ہے کہ بعض افرادمیںبعض صفات اتنے ممتازنظرآتے ہیں کہ سب سے پہلے ان پرنظرپڑتی ہے چنانچہ ساتویں امام میں تحمل وبرداشت اورغصہ ضبط کرنے Ú©ÛŒ صفت اتنی نمایاں تھی کہ آپ کالقب کاظم قراردیاگیاجس Ú©Û’ معنی ہیں غصہ کوپینے والا،آپ کوکبھی کسی Ù†Û’ ترش روئی اورسختی Ú©Û’ ساتھ بات چیت کرتے نہیں دیکھا اورانتہائی ناگوارحالات میں بھی مسکراتے ہوئے نظرآئے مدینہ Ú©Û’ ایک حاکم سے آپ کوسخت تکلیفیں پہنچیں یہاں تک کہ وہ جناب امیرعلیہ السلام Ú©ÛŒ شان میں بھی نازیباالفاظ استعمال کیاکرتاتھا ØŒ مگرحضرت Ù†Û’ اپنے اصحاب کوہمیشہ اس Ú©Û’ جواب دینے سے روکا۔

          جب اصحاب Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ گستاخیوں Ú©ÛŒ بہت شکایت Ú©ÛŒ اورکہاکہ اب ہمیں ضبط Ú©ÛŒ تاب نہیں ہمیں ان سے انتقام لینے Ú©ÛŒ اجازت دی جائے، توحضرت Ù†Û’ فرمایاکہ میں خوداس کاتدارک کروں گا اس طرح ان Ú©Û’ جذبات میں سکون پیدا کرنے Ú©Û’ بعد حضرت خود اس شخص Ú©Û’ پاس اس Ú©ÛŒ زراعت پرتشریف Ù„Û’ گئے اورکچھ ایسا احسان اورحسن سلوک فرمایا کہ وہ اپنی گستاخیوں پرنادم ہوا، اوراپنے طرزعمل کوبدل دیا حضرت Ù†Û’ اپنے اصحاب سے صورت حال بیان فرماکر پوچھاکہ جومیں Ù†Û’ اس Ú©Û’ ساتھ کیا وہ اچھاتھا یا جس طرح تم لوگ اس Ú©Û’ ساتھ کرناچاہتے تھے سب Ù†Û’ کہایقینا حضورنے جوطریقہ اختیارفرمایا وہی بہترتھا اس طرح آپ Ù†Û’ اپنے جدبزرگوارحضرت امیرعلیہ السلام Ú©Û’ اس ارشاد کوعمل میں لاکردکھلایاجوآج تک ”نہج البلاغہ“میں موجودہے کہ اپنے دشمن پراحسان Ú©Û’ ساتھ فتح حاصل کروکیونکہ یہ دوقسم Ú©ÛŒ فتح میں زیادہ پرلطف کامیابی ہے بے Ø´Ú© اس لیے فریق مخالف Ú©Û’ ظرف کاصحیح اندازہ ضروری ہے  اوراسی لیے حضرت علی Ù†Û’ ان الفاظ Ú©Û’ ساتھ یہ بھی فرمایاہے کہ ”خبردار! یہ عدم تشدد کاطریقہ نااہل Ú©Û’ ساتھ اختیارنہ کرنا ورنہ اس Ú©Û’ تشدد میں اضافہ ہوجائے گا۔

          یقیناایسے عدم تشددکے موقع کوپہنچاننے Ú©Û’ لیے ایسی ہی بالغ نگاہ Ú©ÛŒ ضرورت ہے جیسی امام کوحاصل تھی، مگریہ اس وقت میں ہے جب مخالف Ú©ÛŒ طرف سے کوئی ایساعمل ہوچکاہوجواس Ú©Û’ ساتھ انتقامی تشددکاجوازپیداکرسکے لیکن اگراس Ú©ÛŒ طرف سے کوئی اقدام ابھی ایسانہ ہواہو تویہ حضرات بہرحال اس Ú©Û’ ساتھ احسان کرناپسندکرتے تھے تاکہ اس Ú©Û’ خلاف حجت قائم ہواوراسے ایسے جارحانہ اقدام Ú©Û’ لیے تلاش سے بھی کوئی عذرنہ مل سکے بالکل اسی طرح جیسے ابن ملجم Ú©Û’ ساتھ جوجناب امیرعلیہ السلام کوشہیدکرنے والاتھا آخروقت تک جناب امیرعلیہ السلام احسان فرماتے رہے اسی طرح محمدبن اسماعیل Ú©Û’ ساتھ جوامام موسی کاظم علیہ السلام Ú©ÛŒ جان لینے کاباعث ہوا، آپ احسان فرماتے رہے یہاں تک کہ اس سفرکے لیے جواس Ù†Û’ مدینہ سے بغدادکی طرف خلیفہ بنی عباسی Ú©Û’ پاس امام موسی کاظم علیہ السلام Ú©ÛŒ شکایتیں کرنے Ú©Û’ لیے کیاتھا ساڑھے چارسودیناراورپندرہ سودرہم Ú©ÛŒ رقم خودحضرت ہی Ù†Û’ عطافرمائی تھی جس کووہ Ù„Û’ کر روانہ ہواتھا۔

          آپ کوزمانہ بہت ناسازگارملاتھا نہ اس وقت وہ علمی دربارقائم رہ سکتاتھا جوامام جعفرصادق علیہ السلام Ú©Û’ زمانہ میں قائم رہ چکاتھا نہ دوسرے ذرائع سے تبلیغ واشاعت ممکن تھی پس آپ Ú©ÛŒ خاموش سیرت ہی تھی جودنیاکوآل محمدکی تعلیمات سے روشناس بناسکتی تھی آپ اپنے مجمعوں میں بھی اکثربالکل خاموش رہتے تھے یہاں تک کہ جب تک آپ سے کسی امرکے متعلق کوئی سوال نہ کیاجائے آپ گفتگومیں ابتداء بھی نہ فرماتے تھے ØŒ اس Ú©Û’ باوجودآپ Ú©ÛŒ علمی جلالت کاسکہ دوست اوردشمن سب Ú©Û’ دل پرقائم تھا اورآپ Ú©ÛŒ سیرت Ú©ÛŒ بلندی کوبھی سب مانتے تھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next