چند دعائیں صحیفہ حضرت زھراء (ع) سے



پھر حضرت زہرا نے کہا ،میرے لئے خدا کافی ہے، پھر خاموش ہوگئیں۔

۲۔ مہاجرین و انصار کی خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب

سوید بن غفلہ کہتے ہیں۔ جب جناب فاطمہ بیمار ہوئیں اور اسی بیماری میں دنیا سے کُوچ کرگئیں‘ مہاجرین و انصار کی عورتیں آپ کی عیادت کیلئے آئیں اور کہنے لگیں اے دختر پیغمبر آپ کی حالت کیسی ہے تو حضرت زہرا نے حمد باری تعالیٰ بجا لائی، پھر اپنے باپ پر درود بھیجا اور کہا خدا کی قسم اس حال میں صبح کی ہے کہ تمہاری دنیا سے کوئی سروکار نہیں اور تمہارے مردوں سے ناراض ہوں، ان کو خود سے دور کردیا اور ان کو پہچان لینے کے بعد ان سے ناراض ہوں، پس کس قدر پست ہے تلواروں کا کندہونا اور کوشش کے بعد سست ہوجانا اور نوک دار پتھر پر اپنا سر پٹخنا اور اپنی صفوں میں شگاف پیدا ہونا، غلط آراء دینا اور اغراض میں منحرف ہونا، کس قدر گھٹیا زادِ راہ کو اپنے لئے آگے روانہ کیا ہے، خداوند کریم ان سے ناراض ہے اور ہمیشگی عذاب میں ہوں گے۔ اس عمل کی مسئولیت اور ذمہ داری انہی کی گردن پر ہے اور اس کا وزن ان کے کندھوں پر ہے اورننگ و عار ان کے دامن گیر ہو گی، یہ اونٹ ناک کٹا اور زخم خوردہ ہے اور ستم کار لوگ رحمت الہی سے دور ہیں۔

ان پر افسوس، ان لوگوں نے خلافت کو اس کے مضبوط مرکز سے جدا کیوں کیا، ان لوگوں نے نبوت اور راہنمائی کی اساس سے خلافت کو کیوں دور کیا؟ ان لوگوں نے خلافت کو اس گھر سے کیوں نکالا جہاں روح الامین اترا کرتے تھے۔ ان لوگوں پر افسوس!جنہوں نے دنیا و آخرت کے امور جاننے والوں کو خلافت سے علیحدہ کیا آگاہ رہنا یہ سراسرگھاٹے کا سودا ہے۔ علی علیہ السلام میں کون سا عیب دیکھا ہے؟ خدا کی قسم فقط ان میں یہ عیب ہے کہ ان کی تلوار کاٹنے والی ہے، وہ موت سے ڈرنے والے نہیں۔ معاملات میں سخت گیر ہیں اور ان کا محاسبہ سخت ہے اور ان کا غضبناک ہونا رضائے الہی کے لئے ہے۔

خدا کی قسم جن امور کی باگ ڈور رسول خدانے علی کے حوالے کی تھی اگر لوگ ان امور کے سنبھالنے سے باز رہتے تو علی ان کو اچھی طرح سنبھال سکتے تھے۔ علی انہیں بڑی ملائمت سے لیکر چلتے۔ علی خلافت کے شتر کو زخمی کئے بغیر صیح و سالم منزل پر پہنچا دیتے۔ اس کا سوار رنج وعلم نہ اٹھاتا۔ علی لوگوں کو ایسے صاف ستھرے ٹھنڈے میٹھے پانی کے تالاب پر لاکھڑا کرتے جس کا پانی دونوں کناروں سے چھلک رہا ہوتا اور اس کے دونوں اطراف رنگِ کدورت سے گدلے نہ ہوتے۔ اور حضرت امام علی لوگوں کو اس شیریں چشمہ سے سیراب کرکے لوٹاتے۔ علی ظاہر و باطن میں لوگوں کی خیر خواہی کرتے۔ اگر زمام اقدار حضرت امام علی کے پاس ہوتی توبیت المال سے زیادہ دولت نہ لیتے۔ اپنی ضرورت سے زیادہ ہرگز نہ لیتے اگر علی احتیاج بھی محسوس کرتے تو بیت المال سے بس اتنا ہی حصہ لیتے جتنا کہ پیاسے کو اپنی پیاس بجھانے کے لئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اتنے ہی لقموں پر قناعت کرتے جو کسی بھوکے کی زندگی کا سہارا بن سکیں تب لوگوں کو معلوم ہوتا کہ زاہد کون ہے؟ اور مال دنیا کا حریص کون ہے دنیا جان لیتی کہ سچا کون ہے اور جھوٹاکون ہے۔

اگر آبادیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان کے لئے آسمان و زمین کی برکتوں کو کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی اور ہم نے ان کے کردار کی وجہ سے انہیں پکڑلیا۔

اگر قریہ والے ایمان اور تقویٰ کو اپنا لیتے تو زمین و آسمان کی برکتیں ان پر اتاری جاتیں، لیکن آیات الہی کو جھٹلاتے ہیں، "لہذا اہم نے انہیں اپنے اعمال کی زد میں جکڑ لیا ہے اور اس گروہ میں سے زیادتی کرنے والوں کو اپنے کاموں کے نتائج بھگتنا ہوں گے اور وہ کسی صورت میں ہم پر غالب نہیں آسکتے۔"

آگاہ رہو، آؤاور سنو جب تک زندہ رہوں گی حالات نئی نئی چیزیں تمہیں دکھائیں گے اگر تعجب کرو تو ان کی گفتار تعجب آمیز ہے، اے کاش جان لیتی، انہوں نے کس پناہ گاہ میں پناہ لی ہے اور کس ستون پر تکیہ کیا ہے؟ کس رسی کو تھاما ہے؟ کن فرزندوں پر تجاوز کیا ہے اور کس پر ناجائز قبضہ کیا ہے؟ کس قدر برے انسان کو رہبر اور دوست منتخب کیا ہے، اور ستم کاروں کیلئے بہت برا بدلا ہے۔

خدا کی قسم، بڑے پروں کی بجائے دم کے بالوں کا انتخاب کیا ہے، اور پشت کے بجائے دم کو چن لیا ہے، وہ قوم ذلیل و خوار ہوجاتی ہے جو یہ خیال نہیں کرتی کہ اس طرح کے کام اچھے کام ہیں۔ جان لو کہ یہ فاسد ہیں لیکن جانتے نہیں ہیں، افسوس ہے ان پر، کیا جو ہدایت یافتہ ہے وہ پیروی کا مستحق ہے یا وہ جو ہدایت یافتہ نہیں ہے بلکہ ہدایت کا محتاج ہے، وہ پیروی کے مستحق ہیں؟ افسوس ہو تم پر کہ کس طرح فیصلے کرتے ہو۔

مجھے میری جان کی قسم، اس فتنہ کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اس انتظار میں رہو کہ اس مرض کا فساد معاشرے میں پھیل جائے، تو اس وقت دودھ والی جگہوں سے تازہ خون اور ہلاک کرنے والی زہر دوھیا کرو گے، یہی وہ جگہ ہے جب باطل کی راہ چلنے والے نقصان اٹھاتے ہیں، اور آنے والی نسلیں ان کے اعمال کے نقصانات دیکھیں گے، اس وقت آپ کی دنیا ہی آپ کی جان ہو گی اور فتنوں سے آپ کے دلوں کو آرام آئے گا، اور میں خبر دیتی ہوں کہ ہمیشہ تلواروں اور ظلم کرنے والے حملہ آوروں کی زد میں رہو گے اور عمومی طور پر بد نظمی اور طاقتوروں کے استبداد کا شکار رہو گے اور وہ لوگ بہت کم حقوق تمہیں دیں گے اور تلواروں کے زور پر تمہارے اتحاد کو پارا پارا کریں گے، اس وقت تم کف افسوس ملو گے کہ معاملات کہاں تک پہنچ چکے ہیں، آیا جس کام سے صرف نظر کر چکے ہو کیا میں اس کام پر تم کو آمادہ کر سکتی ہوں؟

سوید بن غفلہ کہتے ہیں، پس عورتوں نے یہ باتیں اپنے شوہروں کو بتائیں تو مہاجرین و انصار میں سے بعض لوگ معذرت خواہی کیلئے آکر کہتے تھے، اے سیدة النساء اگر حضرت امام علی ابوبکر کی بیعت کرنے سے پہلے ہمیں بتا دیتے تو ہم ان پر کسی اور کو ترجیح نہ دیتے۔ پھر حضرت زہرانے فرمایا۔ مجھ سے دوررہو، ارتکاب گناہ اور اس سہل انگاری کے بعد بہانہ سازی کا تو کوئی مطلب نہیں بنتا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 next