اسلامی مذاہب میں اتحادکے اہم نکات- حصه اول

محمد طاہر اقبالی


اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس آیت سے استفادہ ہوتا ہے کہ تینوں قیدیںیعنی ''حکمت''، ''موعظہ'' اور ''مجادلہ'' گفتگو کرنے کے طریقہ کو بتارہی ہیں ۔ رسول گرامی مامور تھے کہ ان تینوں راستوں میں سے کسی ایک راستہ سے دعوت دیں، اگر چہ جدال اپنے مخصوص معنی کے ساتھ دعوت شمار نہیں ہوتا(طباطبائی، ١٣٧٤ ، ج١٢، ص ٥٣٤) ۔

اسلامی مذاہب کے متفکرین کے درمیان علمی مباحث اور مذہبی مناظرے اگر مذکورہ خصوصیات کے ساتھ اور حقیقت طلبی و حقیقت جوئی کے ساتھ انجام پائیں تو یقینا ان کے آثار مورد قبول ہوں گے اور مسلمانوں کے درمیان ایک ساتھ زندگی بسر کرنے اور ہم فکرہونے کے اسباب فراہم ہوں گے ۔

تفسیر نمونہ میں اس آیت کے ذیل میں بیان ہوا ہے:

حقیقت میں پہلے جملہ ''ادع الی سبیل ربک بالحکمة'' سے عقلی استدلال کیا گیا ہے... اور ''والموعظة الحسنة'' سے عاطفی بحثوں کی طرف اشارہ ہے ان لوگوں کے لئے جو زیادہ اہل استدلال نہیں ہیں... اور '' وجادلھم بالتی ھی احسن'' ان لوگوں کے لئے ہے جن کا ذہن پہلے سے غلط مسائل سے بھرا ہوا ہے اور ان کے ذہنوں کوصحیح مناظروں سے خالی کیاجائے تاکہ وہ حق کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوجائیں(مکارم شیرازی، ١٣٧٣، ش، ج١٠، ص ٣٩٣۔ وہی حوالہ ١٣٧٤ش، ج ١١، ص ٤٥٥۔ کریمی حسینی، ١٣٨٢ش، ج١، ص ٤٠٢) ۔

'' و لا تجادلوا اھل الکتاب الا بالتی ھی احسن الا الذین ظلموامنھم'' (سورہ عنکبوت، آیت ٤٦) ۔

تفسیر قمی میں بیان ہوا ہے:

 ÙˆÙ‚ولہ ''ولا تجادلوا اھل الکتاب'' قال : الیھود والنصاری، '' الا بالتی Ú¾ÛŒ احسن'' قال :  بالقرآن(قمی، ١٣٦٧ش، ج٢، ص ١٥١) Û” اہل کتاب سے مجادلہ نہ کرو اور وہ ''بنی نجران'' Ú©Û’ نصاری(عیسائی)ہیں اور کہا گیا ہے کہ نصاری اور یہود دونوں مراد ہیں Û”

تفسیر مجمع البیان میں بیان ہوا ہے:

'' الا بالتی ھی احسن'' ای بالطریق التی ھی احسن و انما یکون احسن اذا کانت المناظرہ برفق ولین لارادة الخیر والنفع بھا و مثلہ قولہ فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر او یخشی والاحسن الاعلی فی الحسن من جھة قبول العقل لہ وقد یکون ایضا اعلی فی الحسن من جھة قبول الطبع و قد یکون فی الامرین جمعیا و فی ھذا دلالة علی وجوب الدعاء الی اللہ تعالی علی احسن الوجوہ و الطفھا و استعمال القول الجمیل فی التنبیہ علی آیات اللہ و حججہ''۔

''اور اہلِ کتاب سے مناطرہ نہ کرو مگر اس انداز سے جو بہترین انداز ہے''تاکہ دشمن میں جواب دینے کی سکت نہ رہے اور آپ کی بات کو قبول کرلے ، ''مجادلہ احسن'' یہ ہے کہ خیر خواہی اور نفع پہنچانے کی غرض سے بہت ہی آرام اور ملائم زبان سے مناظرہ کیا جائے اوراس کی مثال اس آیت کریمہ کی طرح ہے : ''فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر اویخشی'' یعنی تم (موسی اور ہارون)فرعون سے سے بہت ہی نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید وہ متوجہ ہوجائے یا اپنے مستقبل سے ڈر جائے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next