ایران، مصر اور تقریب مذاہب اسلامی

محمد طاہر اقبالی


مصر میں صوفی فرقہ جو حضرت امام علی (علیہ السلام) کا ماننے والا ہے انہوں نے بھی علمائے اہل سنت کے ساتھ بہت اچھی علمی مدد کی۔ مصر میں صوفیہ فرقہ کے رہبر جانتے تھے کہ مصر کے لوگوں کو اہل بیت (علیہم السلام) سے بہت زیادہ محبت ہے لہذا انہوں نے اپنی تہذیبی کار کردگی سے وہابیوں کی تفرقہ انداز تعالیم کو آگے بڑھنے سے روکا۔

مصر میں تقریبی افکار کے رشد کرنے کا باعث ایک طرف تو بہرہ، صوفی، جعافرہ اور اہل بیت (علیہم السلام) کے چاہنے والے بنے اور دوسری طرف کے بہت سے روشن فکر علماء جیسے شیخ محمود شلتو ت اور کواکبی بنے ۔ وہابیوں کی کارکردگی عبدالناصر کے زمانہ سے آغاز ہوئی اور اب تک جاری ہے اور ہمیشہ ان لوگوں نے تقریبی فکر کا مقابلہ کیا ہے ۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی (رہ) کی طرف سے اتحاد کا پرچم بلند ہونے کی وجہ سے مصر کے لوگوں نے بہت ہی ذوق و شوق سے وحدت کے پیغام کو قبول کیا اور مبارک باد کہی ، لیکن مغرب کے تبلیغاتی اڈے اور وہابیت کے انٹر نیشنل مرکز نے بہت سی کتابوں کو منتشر کرکے سنی معاشرہ میں شیعوں کے چہرے کو خراب کرنے کی کوشش کی ۔ اس بنیاد پر انہوں نے وہ کتابیں جن میں شیعوں کو برا بھلا کہا گیا تھا ، صفویہ کے زمانہ کی وہ کتابیں جن میں اہل سنت کو برا بھلا کہا گیا تھا ، لوگوں کے سامنے دوبارہ پیش کردی ، لہذا مصر میں شیعوں کے خلاف ” الصحوة“ پریس سے استفادہ کیا گیا ۔ اس پریس نے ۱۹۸۳ سے ۱۹۸۶ تک سو سے زیادہ کتابیں منتشر کیں، ان کتابوں کے منتشر کرنے کا سارا پیسہ وہابیوں کی طرف سے دیا جاتا تھا۔

اگر چہ اس حملہ سے مذہب شیعہ پر تنقید کی گئی لیکن دوسری طرف سے تقریبی افکارکی تبلیغ کے لئے بہت مفید ثابت ہوا کیونکہ مصر کے لوگ شیعہ اور اہل سنت کے اختلاف کو پہچاننے کے در پے ہوگئے اور مصر میں معاصرمتفکرین کی پیدائش سے تقریبی افکار کو بہت تقویت ملی۔ مثال کے طور پرمرحوم علامہ شیخ محمد غزالی جن کو پورا مصر قبول کرتا تھا یہ ہمیشہ امت اسلامی کے درمیان اختلاف کو برا سمجھتے تھے اور تقریبی افکار کی حمایت کرتے تھے اور کہتے تھے:

فقہ میں اختلاف سے ڈرنا جائز نہیں ہے کیونکہ فقہاء کا اختلاف ناگزیر ہے ۔ جو لوگ کسی مذہب کی تقلید کرنے سے منع کرتے ہیں وہ تعصب سے کام لیتے ہیں اور اپنے ماننے والوں کو دوسرے مذاہب کی تقلید سے منع کرنا ایک قسم کا مذہبی تعصب اور تنگ نظری ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے(۲) ۔

اخوان المسلمین نے بھی تقریب مذاہب کے امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور امت اسلامی کے اتحاد کو اس وقت کے واحد دشمن سے مقابلہ کرنے کو ضرور سمجھتے تھے ۔

ایسالگتا ہے کہ مصر میں تقریبی افکار کا رشد کرنا اجتناب ناپذیر ہے مصر کے علماء اور روشن فکر افراد اپنی نئی تحریک میں اسلام ناب محمدی کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں لہذا وہ اپنے مشترک دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے اسلامی اتحاد و اتفاق کو ضروری سمجھتے ہیں ، گذشتہ تاریخ اور معاشرہ پر حاکم تہذیب بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہے ، لہذا کہا جاسکتا ہے کہ اگر مصر میں تقریب اپنے صحیح راستہ کی طرف چلے تو آئندہ میں جہان اسلام کیلئے ایک بہت محکم مدد گار ثابت ہوسکتی ہے ۔یہ بات بھی واضح ہے کہ ایران اور مصر کے درمیان کسی بھی طرح کا مثبت قدم دونوں ملکوں کے ارتباط کو قوی سے قوی ترکردے گا۔

حاشیہ جات:

Û±Û”  البتہ الازہریونیورسٹی Ú©Û’ ذریعہ اس بات کوقبول کرنے سے متعلق کوئی خبر نہیں ہے Û”

Û²Û”  الزہرام اخبار، Û±Û·Û” Û±Û² Û” Û±Û³Û·Û°Û”



back 1 2 3