مذہب اشعری اور معتزلہ میں تبدیلیاں

سید حسین حیدر زیدی



Deprecated: Function eregi_replace() is deprecated in /home/urdalshia/public_html/page.php on line 99

Deprecated: Function split() is deprecated in /home/urdalshia/public_html/page.php on line 103

 

ج :  شیخ شلتوت

 اہل سنت کے متاخرین میں عقل پر عمل کرنے والوں میں شیخ شلتوت بھی ہیں، آپ مسئلہ جبر واختیار میں اشاعرہ کے مسئلہ کسب کو جبر کی مشکل حل کرنے کے لئے کافی نہیں سمجھتے تھے اور کہتے تھے :تفسیر کسب یہ ہے کہ فعل کے محقق ہونے میں اس کی قدرت کے موثر ہوئے بغیر، فعل اور قدرت انسان کے درمیان تقارن پایا جائے ، اس کے علاوہ اس کی لغوی اصطلاح اور قرآنی اصطلاح میں ہماہنگی نہ ہو یہ مسئلہ تکلیف کی تصحیح و توجیہ ، اصل عدل(الہی) اور (انسان کی)مسئولیت کی ذمہ دارنہیں ہے کیونکہ مذکورہ مقارنت خداوندعالم کے ذریعہ قدرت انسان کے ظرف میں ایجاد شدہ فعل کے نتیجہ میں واقع ہوئی ہے ،انسان کی مخلوق اور قدرت کے تحت نہیں، تاکہ مصحح انسان کے فعل کی بانسبت ہو اور فعل جس طرح انسان کی قدرت کے ساتھ مقارن ہے اسی طرح سمع و بصر اور علم انسان سے بھی مقارن ہے ۔

اس صورت میں قدرت کوکونسا امتیاز پیایا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ فعل کی مقارنت انسان کی اپنے فعل کی طرف نسبت دینا کا سبب ہو ؟

انہوں نے اس متعلق اپنے نظریہ کو ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے:

میرا نظریہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے قدرت اور ارادہ کو عبث و بیہودہ انسان میں خلق نہیں کیا ہے بلکہ یہ دونوں تکلیف و جزائاور انسان کے افعال سے منسوب ہونے کے ملاک پر منحصرہے جب بھی انسان خیر یا شر کے راستہ کوانتخاب کرلے تو خداوند عالم اس کو قہری طور پر اس راستہ پر چلنے سے منع نہیں کرتا ، اگر چہ انسان اور اس کی قدرت و اختیار،خدا کی قدرت اور مشیت کے تحت ہیں ۔ وہ اگر چاہے تو کامل طور سے خیر کے جذبہ کو اس سے لے سکتا ہے تاکہ شر اس کی پوری ذات کو گھیر لے ، نیز اگر چاہے تو اس سے شر کے جاذبہ کو سلب کرسکتا ہے تاکہ خوبی اس کی ذات کا احاطہ کرلے ، لیکن مسئلہ تکلیف میں حکمت الہی اور آزمائش اسی چیز کا اقتضاء کرتی ہے جو انسان کے اندر سموئی گئی ہے ۔

اشعری نے ایک نیا طریقہ پیش کیا تاکہ اس کے ذریعہ عقل پر عمل کرنے والوں(معتزلہ) اور ظاہر پر عمل کرنےوالوں( اہل حدیث ) کے درمیان سے تضاد کو برطرف کرے ، اس وجہ سے وہ دونوں گروہوں کے  موافق بھی تھے اور مخالف بھی۔ عقل پر عمل کرنے والوں سے اس لئے موفق تھے کہ دینی عقاید کو ثابت کرنے میں عقلی استدلال بدعت اور حرام نہیں ہے بلکہ بہتر اور پسندید ہ ہے اور اس کے متعلق انہوں نے ”استحسان الخوض فی علم الکلام“ جیسی کتاب لکھی ہے جب کہ اہل حدیث علم کلام اور عقلی استدلال کو بدعت اور حرام جانتے تھے ۔

دوسری طرف عقل اور ظواہر دینی کے درمیان تعارض کے وقت ظواہر کو مقدم کرتے تھے جس کے نتیجہ میں انہوں نے صفات ذات اور صفات خبریہ کی بحث میں معتزلہ کے عقاید کی مخالفت کی ، جس طرح سے اصل حسن وقبح عقلی اوراس کی فروعات کو مردود تسلیم کیااور کسی بھی واجب عقلی کو قبول نہیں کیا اور اس متعلق اہل حدیث کے ہمفکر تھے اورچونکہ ظواہر کو محفوظ کرنے میں تاویل کو صحیح نہ سمجھتے ہوئے بعض موارد میں اصل تنزیہ اور صفات جمال جلال سے منافات پائی جاتی تھی لہذا عقلی استدلال سے استفادہ کرتے ہوئے جدید کلامی فرضیات اختراع کئے ، یا اگر یہ فرضیات پہلے سے بیان شدہ تھے تو ان کو تسلیم کرنے کاحکم دیا یہ فرضیات، علم کلام میں مخصوص عقاید و نظریات کو تشکیل دیتے ہیں ۔

ابوالحسن اشعری کی نئی تخلیقات

الف :  خداوند عالم کے ازلی صفات



back 1 2 3 4 5 6 7 next