امام سجاد اور پیغام عاشورا



امام سجاد (علیہ السلام) نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

جو میری بات کو قبول کرے گااور خداورسول کی خاطر میں جو کچھ کہہ رہاہوں اس پر عمل کرے گا تو خداوندعالم اس کو معاف کرے گا کیونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا طریقہ ہم سب کے لئے نمونہ عمل ہے اور پھر آپ نے اس آیت سے استناد فرمایا: ” ولکم فی رسول اللہ اسوة حسنة“۔

امام علیہ السلام کی تقریر ختم ہونے سے پہلے کوفیوں نے ہمدردی کی اظہار کیا اور سب نے ایک زبان ہو کر کہا : اے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہم آپ کا حکم ماننے کو تیار ہیں اور آپ سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں ، آج کے بعد سے ہم آپ کے مطیع و فرمانبردار ہیں، آپ جس سے بھی جنگ کرنے کا حکم دیں گے ہم اس سے جنگ کریں گے اور جس سے صلح کرنے کا حکم دیں گے اس سے صلح کریں گے اور ہم ظالموں سے آپ کا اور اپنا حق واپس لیں گے۔

امام زین العابدین (علیہ السلام) نے ان کی ندامت آمیز باتوں اور نعروں کے جواب میں فرمایا:

ہر گز نہیں! ( میں کبھی بھی تم پر اعتماد نہیں کروں گا اور تمہارے نعروں اور سراب حمایت کا دھوکا نہیں کھاوں گا) اے خیانتکاروں اور دھوکے باز کوفیوں! کیا تم چاہتے ہو کہ میرے والد کی طرح مجھ سے عہد و پیمان کو انجام دے کر اس پر عمل نہ کرو، کیا تم مجھ پر بھی وہی ستم کرنا چاہتے ہو؟

خدا کی قسم ! تم نے جو زخم لگایا ہے ابھی تک اس کا خون جاری ہے اور میرا سینہ ، والد اور بھائی کے غم سے جل رہا ہے۔ مصیبتوں کا تلخ مزا ابھی تک میری زبان پر ہے ، میں تم کوفیوں سے فقط یہ چاہتاہوں کہ نہ ہمارے ساتھ رہو اور نہ ہمارے خلاف کوئی کام انجام دو۔

امام سجاد (علیہ السلام) نے اس تقریر کے ذریعہ ان کی بے وفائی اور بے اعتباری کو ظاہر کردیا اور کوفیوں کے دلوں میں حسرت کی آگ کو بھڑکا دیا، اور اس کے ذریعہ ان کی شرمندگی اور ندامت میں اضافہ کردیا:

اگر حسین (علیہ السلام) قتل ہوگئے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ ان سے پہلے ان کے والد گرامی کو تمام کرامتوں کے ساتھ تم نے شہید کردیا تھا ۔ اے کوفیوں! تم نے امام حسین (علیہ السلام) پر ظلم کیا ہے اس پر خوش نہ ہو ، جو گذر گیا وہ بہت عظیم واقعہ تھا! میری جان قربان ہو اس شخصیت پر جس نے نہر فرات کے کنارے شربت شہادت نوش کیا ۔ دوزخ کی آگ اس کے لئے ہے جس نے ان کو شہید کیا (۱) ۔

جو میری بات کو قبول کرے گااور خداورسول کی خاطر میں جو کچھ کہہ رہاہوں اس پر عمل کرے گا تو خداوندعالم اس کو معاف کرے گا کیونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا طریقہ ہم سب کے لئے نمونہ عمل ہے اور پھر آپ نے اس آیت سے استناد فرمایا: ” ولکم فی رسول اللہ اسوة حسنة“۔

عبید اللہ ابن زیاد کی مجلس میں امام سجاد (علیہ السلام) کی تقریر



back 1 2 3 next