رسول اکرم کا طریقہ حکومت – پهلا حصه

سید حسین حیدر زیدی


 ÛŒÛØ§Úº تک کہ جب مکہ فتح  ہو گیا اور رسول اکرم(ص)  اپنے اصلی وطن واپس پہونچے تب بھی آنحضرت Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ دار الحکومت قرار نہیں دیا ØŒ بلکہ واپس مدینہ تشریف Ù„Û’ گئے ØŒ اسلامی حکومتوں Ú©ÛŒ تاریخ میں مکہ معظمہ کبھی بھی دار الحکومت نہیں ہوا ہے اسکی وجہ ہمارے لیے مجہول ہے Û”

ہاں مکہ معظمہ نہ فقط یہ کہ حکومت کا پائتخت نہیں ہوا بلکہ رسول اکرم(ص) Ú©Û’ اس عمل سے (شہر پرستی )  ( اور وطن پرستی ) Ú©Û’ رجحان کا بھی عملی طور پر خاتمہ ہو گیا رسول مقبول (ص) Ú©Û’ بہت سے اصحاب جو Ù¾Û’ در Ù¾Û’ اذیت Ùˆ آزار کا نشانہ بنتے تھے جیسے بلال ØŒ عمار ØŒ صہیب ØŒ سلمان ØŒ اویس قرنی ØŒ معاذبن جبل ØŒ ابوذر غفاری ،مقداد ØŒ عدی بن حاتم اور عبداللہ بن مسعود  حقیقت میں مکہ Ú©Û’ رہنے والے نہیں تھے اور وزیروں میں بھی جو پہلے شمار کیئے ہیں Ú†Ú¾ اشخاص غیرمکی ہیں اور اگر امام حسن (ع) Ùˆ حسین (ع)  Ú©Ùˆ شمار نہ کیا جائے تو Ù…Ú©ÛŒ اور غیر Ù…Ú©ÛŒ وزیروں کا پلہ برابر ہے Û”

اور سترہ گورنروں میں دس یمن Ú©Û’ØŒ ایک مدینہ سے، اور Ú†Ú¾ شخص Ù…Ú©ÛŒ ہیں ،جن میں سے ایک شخص (عتاب بن اسید) ہے جو رسول اکرم (ص) Ú©ÛŒ جانب سے والی مکہ رہا ہے(Û²Û³)  اس شخص Ú©Ùˆ اس لیے مکہ کا والی نہیں بنایا کہ وہ Ù…Ú©ÛŒ ہے بلکہ اس لیے کہ وہ مقامی ہے اور باقی پانچ شخص جو قریشی ہیں ان میں ایک (ابو سفیان) ہے جسے (مئولفة قلوبہم ) Ú©Û’ عنوان سے نجران پر نصب کیا ØŒ (Û²Û³)  یہ بھی مکہ Ú©Û’ عنوان سے نہیں اور باقی حضرات Ú©Ùˆ ان Ú©ÛŒ صلاحیت اور لیاقت Ú©ÛŒ وجہ سے نصب فرمایا، جبکہ Ù…Ú©ÛŒ ہونے Ú©Ùˆ کوئی مداخلت نہیں تھی Û”

لہذا رسول اکرم (ص) Ú©ÛŒ حکومت میں وزیروں اور گورنروں  نیز عہدہ داروں Ú©ÛŒ تعداد Ú©Û’ مطابق Ù…Ú©ÛŒ ہونے Ú©Ùˆ کوئی برتری یا فوقیت حاصل نہیں تھی ØŒ اب رہا یہ سوال کہ خصوصا(عثمان بن طلحہ بن شیبہ ) جو وراثت Ú©Û’ طور پر کلید بردار ہوتے تھے اور پیغمبرنے  ان Ú©Ùˆ اسی منصب پر باقی رکھا(Û²Û´)  تو وہ اس لیے  نہیں کہ وہ مکہ Ú©Û’ رہنے والے تھے بلکہ امانت واپس لوٹانے Ú©Û’ عنوان سے ان Ú©Ùˆ اس منصب پر باقی رکھا کیونکہ یہ آیت نازل ہوئی کہ ( (ان اللہ یامرکم ان تودوا الامانات الی اھلھا)  (Û²Ûµ)  خداوند عالم تمہیں Ø­Ú©Ù… دیتا ہے کہ امانتوں Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ اہل Ú©Ùˆ لوٹا دو ) Û”

گورنروں کے درمیان اہل یمن کا کثیر تعداد میں موجود ہونا اور ایک شخص (حذیفہ ) کا وزیروں میں شامل ہونا اس بات کی حکایت کرتاہے کہ مکی ہونے کو کوئی برتری یا فوقیت حاصل نہیں ہے ۔

 Ø¨Û” مدینہ یعنی دارالحکومت Ú©ÛŒ طرف رجحان

 Ø¨Ù…دینةالرسول (ص) ہجرت سے پہلے جس کانام (یثرب ) تھا اسلام اور اسلامی حکومت کا مرکزرہا ہے نیز یہ شہر بہت سے نیک اور پاک Ùˆ پاکیزہ لوگوں کا مدفن ہے ،رسول اکرم (ص)Ù†Û’ اس شہر Ú©Ùˆ دار الحکومت بنانے کیلیے مکہ معظمہ Ú©Û’ اوپر بھی ترجیح دی یہاں تک کہ فتح مکہ Ú©Û’ بعد بھی دار الحکومت Ú©Ùˆ نہیں بدلا۔

لیکن کیا مدینہ کو کوئی فوقیت حاصل ہے ؟ یعنی اہل مدینہ کیونکہ مدینہ میں رہتے ہیں اس وجہ سے انہیں کوئی امتیاز یا دوسرے لوگوں کے اوپر فوقیت حاصل ہے ، نیز دارالحکومت کی طرف رجحان جو رسول خدا (ص) کے زمانے میں مدینہ کی جانب رجحان کے عنوان سے ظاہر تھا ،کیا حکومت اسلامی میں اعضاء حکومت کے انتخاب کیلیے یہ کوئی معیار ہو سکتا ہے ؟ اس سوال کا حواب بھی منفی ہے اس لیے کہ وزیروں کی فہرست میں جو دیکھا گیا ہے فقط ایک شخص مدنی ہے اور وہ (زیاد بن لبید انصاری ) ہیں ۔ اور ہل یمن حضرات جو نہ مکی ہیں اور نہ مدنی رسول خدا (ص) کی حکومت کے گورنروں میں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے مہاجرین بھی جن میں مکی اور غیر مکی دونوں حضرات موجود تھے، حکومت کے منصبوں پر فائز تھے ۔

خلاصہ کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ : جگہ اور مقام معیار نہیں ہے یہاں تک مکہ مدینہ اوریمن بھی معیار نہیں ہو سکتا اور کسی حاکم اسلامی کو حق نہیں کہ کسی شخص کو اس وجہ سے کہ اس شہر کے رہنے والا ہے یا دارالحکومت میں مقیم ہے یا کسی مہم شہر یا صوبہ جیسے یمن میں مقیم ہے دوسرے پر فوقیت دے ۔

۳۔ قبیلہ (قریش وغیرہ)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next