رسول اکرم کا طریقہ حکومت – پهلا حصه

سید حسین حیدر زیدی


Ú©Ù„ÛŒ طور پر اس قسم Ú©ÛŒ روایات قریش Ú©ÛŒ فوقیت  Ú©Ùˆ ثابت کرنے سے عاجز ہیں مگر بنی ہاشم کیلے(یعنی فقط بنی ہاشم Ú©Û’ مقدم کرنے Ú©Ùˆ ثابت کرتی ہیں Û” اب رہیں وہ روایات جو ہماری فقہی کتابوں میں حیض Ú©ÛŒ بحث میں وارد ہوئی ہیں کہ قریشی خواتین دس سال دیر سے یائسہ ہوتی ہیں ( Û³Û¶)  تو یہ ایک تکوینی اورتعبدی امر ہے اور بعید ہے کہ کوئی شخص اس بات Ú©Ùˆ قریش Ú©Û’ لیے امتیاز شمار کرے ۔اس لیے کہ اس صورت میں اس Ú©Ùˆ نبطیہ خواتین Ú©Û’ لیے بھی امتیاز کا قائل ہونا ہوگا ØŒ چونکہ نبطیہ خواتین روایات میں قریشی خواتین Ú©Û’ برابر ہیں Û”

شیخ مفید کتاب مقنع میں کہتے ہیں : ( قدر ÙˆÛŒ ان القرشیہ من النساء والنبطیہ تریان الدم الی ستین سنة ) (Û³Û·)  جبکہ نبطیہ Ú©Û’ بارے میں Ø´Ú© Ùˆ تردید پائی جاتی ہے کہ وہ عرب ہیں جو عجمی ہوگئے یا عجمی ہیں جو عرب ہوگئے  Û³Û¸  اگر چہ ابن عباس سے منقول ہے کہ (نحن معاشر قریش حتی من النبط)( Û³Û¹)  لیکن واضح نہیں ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں نبطی نسل Ú©ÛŒ کوئی شناخت  نہیں ہے  اور قبیلہ قریش سے بھی بنی ہاشم Ú©Û’ علاوہ کوئی موجود  نہیں ہیں ØŒ اگر چہ صاحب جواہر موجودہ زمانے میں قریش Ú©Û’ معروف قبیلہ Ú©Û’ نام شمار کرتے ہیں (Û´Û°)  جو ہمارے لیے شناختہ شدہ نہیں ہے Û”

لہذا نہ اہل سنت کی ان روایات میں اور نہ قریشی خواتین کے یائسہ ہونے کے مسئلہ میں کوئی طریقہ، قریش کی برتری کا نظر نہیں آتانیز اس طرح کے امور قریش کو فوقیت دینے پر قادر نہیں ہیں اور قریش کو محور قرار دینا قرآن و سنت کی رو سے مناسب نہیں ہے ۔

لیکن جو چیز ہماری اس بحث کے لئے مفید ہے وہ یہ ہے کہ کنبہ پروری جو خصوصاً رسول خدا کے بارے میں قریش کی جانب مائل ہونے کی شکل میں ظاہر تھا ایک منفی معیار ہے،یعنی ایک اسلامی حاکم یا مدیر ارکان کے انتخاب میں اپنے قبیلہ و خاندان کو فوقیت دینے کے عنوان سے مد نظر قرار نہیں دے سکتا ،البتہ صدر اسلام میں قبیلوں اور خاندانوں کی تشخیص بہت آسان تھی اس لئے کہ قبائلی نظام اس قدر دقیق طور پر حاکم تھا کہ قرآن کے مطابق قبیلوں کے تعارف اور شناخت کا باعث تھا ،(۴۱) اور ہر شخص اس کے قبیلہ کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور امام جعفر صادق (علیه السلام) سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ قبیلہ میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو باپ دادا کی طرف منسوب ہوں ،(۴۲) ہمارے زمانے میں اس قسم کی نسبت ایک خاندان یا ایک نسل میں پایا جانا ممکن ہے یا جو کچھ آل کے نام سے مشہور ہے بالکل اس کے مشابہ جو خلیج فارس کے ممالک میں رائج ہے جیسے آل سعود ،آل نھیان ،آل صباح و ․․․اگر چہ قرآنی اصطلاح کے مطابق آل ابراہیم اور آل عمران کا مفہوم اور مطلب اس سے زیادہ وسیع ہے ، اس لئے کہ آل ابراہیم بنی اسحاق اور بنی اسماعیل میں تقسیم ہو جاتے ہیں جن میں سے پہلی قسم بنی اسحاق یہودیوں اور دوسری قسم بنی اسماعیل ،عرب کو تشکیل دیتی ہے ،(۴۳) ۔لہذا ”آل“ یہاں تک نسل سے بھی وسیع معنی اختیار کر لیتی ہے ،البتہ ہمارے زمانے میں آل کے جو معنی سمجھے جاتے ہیں وہ بہت ہی محدود ہیں اور شاید اس کا بہترین ترجمان لفظ خاندان یا کنبہ ہو ورنہ قبیلہ کا کوئی مصداق ہمیں نہیں ملے گا ۔

اس بنیاد پر جب رسول خدا کے زمانے میں قریش کی محوریت اورخاندان اور کنبہ پروری کا عنصر ختم ہو گیا تو ہر زمانے کے لئے مناسب معیار حاصل ہو جاتا ہے یعنی خاندان پرستی ممنوع اور کنبہ پروری ناقابل قبول ہے ،دوسرے الفاظ میں ،خاندان اور قبیلہ کو کار کنیت کے عنوان سے دوسروں کے اوپر کوئی کسی قسم کی فوقیت نہیں ہے ۔

مآخذ:

Û±Û”  حسن ستاری، مدیریت منابع انسانی،ص۹۱۔

۲۔حجرات(49) آیہ13.۔

۳۔ بحارالانوار،ج76،ص350.

۴۔مرتضی مطہری،خدمات متقابل اسلام Ùˆ ایران،ص288  289.



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next