خالق ازلی کے وجود کی ضرورت



اس کے بعد اس غذا کے ھاضمہ کی بات آتی ھے تو واقعاً کتنے منظم اور دقیق لحاظ سے یہ کھانا ہضم هوتا ھے کیونکہ ایک خاص مشین کی دقیق فعالیت کے ذریعہ کھانا ہضم هوتا ھے جو اس بات کی بہترین دلیل ھے کہ اس بہترین نظام کو خلق کرنے والی اللہ کی ذات ھے۔

کیونکہ انسان دن بھر مختلف چیزیں کھاتا ھے چاھے وہ بہنے والی هوں یا منجمد (جمی هوئی)، سخت هوں یا نرم، ھلکی هو ں یا بھاری، کڑوی وتیز هوں یا میٹھی، ٹھنڈی هوں یا گرم یہ سب کی سب صرف ایک ھی چیز اور ایک ھی طریقہ سے ہضم هوتی ھیں کیونکہ اس غذا پر ایک ترش (کڑوے) قسم کے غدہ سے کچھ رس نکلتا ھے جو اس غذا کو ہضم کرتا ھے او راگر یہ رس ذرا بھی کم هوجائے تو غذا ہضم نھیں هوگی اور اگر تھوڑا بھی زیادہ هوجائے تو انسان کا جسم جلنے لگے او رپورے بدن میں سوزش هونے لگے۔

اور جس وقت غذا منھ میں رکھی جاتی Ú¾Û’ تو ھاضمہ سسٹم کا پھلا کام شروع هوجاتا Ú¾Û’ کیونکہ یہ غذا لعاب دہن سے مخلوط هوتی Ú¾Û’ اور لعاب لعابی غدود سے نکلتا Ú¾Û’ جو کھانے کوہضم کرنے کا پھلا مرحلہ هوتا Ú¾Û’ کیونکہ جس طرح یہ لعاب Ú©Ú‘ÙˆÛŒ ØŒ تیز اور تکلیف دہ چیزوں Ú©Û’ اثر Ú©Ùˆ ختم کرنے میں اصلی عامل Ú¾Û’ØŒ اور اسی Ú©ÛŒ وجہ سے کھانے Ú©Û’ درجہ حرارت Ú©Ùˆ Ú©Ù… کیا جاتا Ú¾Û’ اور Ù¹Ú¾Ù†ÚˆÛŒ چیزوں Ú©ÛŒ Ù¹Ú¾Ù†ÚˆÚ© Ú©Ùˆ Ú©Ù… کیا جاتا Ú¾Û’ چاھے وہ برف Ú¾ÛŒ کیوں نہ هو،بھرحال جب یہ غذا دہن میں اپنے لعاب Ú©Û’ ذریعہ خوب چباکر مھین کرلی جاتی Ú¾Û’ تووہ پھر وہ آہستہ آہستہ حلق تک پهونچتی Ú¾Û’ اس Ú©Û’ بعد آنتوں Ú©Û’ ذریعہ معدہ تک پهونچتی Ú¾Û’ØŒ اور یہ معدہ ”کلور وڈریک حامض“  جدا کرتا Ú¾Û’ØŒ کیونکہ یہ کلور معدہ سے خاص نسبت رکھتا Ú¾Û’ اور اس Ú©ÛŒ نسبت ہزار میں چار یا پانچ هوتی Ú¾Û’ØŒ اور اگر اس حامض کلورکی نسبت زیادہ هوجائے تو پھر پورا نظام معدہ جل اٹھے گا،چنانچہ یھی کلور حامض مختلف اجزا میں جدا هونے Ú©Û’ بعد کھانے Ú©Ùˆ اچھے طریقہ سے ہضم کردیتا Ú¾Û’ØŒ لہٰذا یہ آنتوں کا عصارہ اور عصارہ Ù´ زردنیز ”بنکریاس“ وغیرہ یہ تمام عصارات اس غذا سے ملائمت رکھتے ھیں۔

اسی طرح آج کاسائنس یہ بھی کہتا ھے کہ وہ پانی جو معدہ او رآنتوں سے نکلتا ھے اس طرح وہ پانی جو ان کے پردوں میں هوتا ھے یہ دونوں ان اھم عاملوں میں سے ھیں جو مختلف قسم کے مکروب"Microbe سے لڑتے ھیں کیونکہ جب یہ عصارات (پانی) نکلتے ھیں تو دوسرے قسم کے پانی ان دونوں کے درمیان حائل هوجاتے ھیں اور ایک دوسرے سے ملنے نھیں دیتے یھاں تک وہ فضلہ کے ساتھ انسان سے خارج هوجاتے ھیں۔

چنانچہ ابھی چند سال پھلے تک یہ بات معلوم نھیں تھی کہ ان ”صمّاء غدوں“ (بھرے غدوں) کاکیا کام ھے۔

 Ø§Ùˆ رکیمیاوی چھوٹے عامل جسم Ú©ÛŒ ضروری ترکیبات Ú©Ùˆ پورا کرتے اور ان Ú©Û’ کروڑوں اجزاء هوتے ھیں، اور اگر ان میںسے کوئی ایک جزء بھی ناکارہ هوجائے تو انسان کا پورا جسم متاثر هوجاتا Ú¾Û’ کیونکہ ان غدوں سے نکلنے والا پانی جو ایک دوسرے Ú©ÛŒ تکمیل کا باعث هوتا Ú¾Û’ ،چنانچہ ان میں ذرا سا بھی اختلال، انسان Ú©Û’ لئے خطرہٴ جان بن جاتا Ú¾Û’Û”

اور واقعاً یہ بھی عجیب بات ھے کہ آج کا سائنس اس نتیجہ پر پهونچ چکا ھے کہ انسان کے جسم میں موجود انتڑیاں ساڑھے چھ میٹر کی هوتی ھیں او ران کے اندر دو طرح کی حرکت هوتی ھے:

          Û±Û” ”حرکت خلط“ جس Ú©Û’ ذریعہ کھانے Ú©Ùˆ اچھی طرح باریک کیا جاتا Ú¾Û’ اور آنتوں میں موجود مختلف قسم Ú©Û’ عصارات سے وہ کھانا بالکل ہضم هوجاتا Ú¾Û’Û”

          Û²Û” ہضم شدہ کھانے Ú©Ùˆ جسم Ú©Û’ مختلف اعضاء تک پهونچانا اور آنتوں میں جس وقت کھانا ہضم هوتا Ú¾Û’ تویہ کھانا دوحصوں میں تقسیم هوجاتا Ú¾Û’ ہضم شدہ کھانا (غذائیت) اور غلاظت، لہٰذا اس حرکت Ú©ÛŒ بنا پر انسان Ú©Û’ جسم سے صرف غلاظت باھر نکلتی Ú¾Û’ جس Ú©Û’ باقی رہنے سے کوئی فائدہ نھیں هوتا (بلکہ نقصان هوجاتا Ú¾Û’)

اسی انسان کے جسم میں ان پیچیدہ مختلف کیمیاوی مادوں کے علاوہ دوسرے” میکروب “ "Microbe"، جراثیم"Virus" اور باکٹریا "Bacteria" بھی هوتے ھیں جیسا کہ ماھرین علم کا کہنا ھے کہ اگر میکروب اور جراثیم میں کسی قسم کا کوئی اضافہ هوجائے یا ان میں سے کوئی اپنا کام کم کرنے لگے یا ان کا تناسب کم وزیاد هوجائے تو انسان ھلاک هوجاتا ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 next