خالق ازلی کے وجود کی ضرورت



          ۴۔”سیٹوسین“

 ÛŒÚ¾Ø§Úº پرسوال یہ پیدا هوتا Ú¾Û’ کہ ان میں کا پھلا تیسرے سے یاچوتھے سے کیوں نھیں بدلتا؟ اور کون Ú¾Û’ جو اس میں مانع Ú¾Û’ØŸ

لہٰذا اس کے منع میں دوران ہندسہ ، دوری اور زاویہ مانع هوتے ھیں کیونکہ ان میں سے ھرایک کے لئے محدودیت ھے جو ان میں سے دوسرے کے علاوہ صرف ایک میں حلول کرتا ھے۔

اور شاید یہ عظمت اور خوبصورتی کے بہترین عکاس ھیںجو ان عملیات میں جو ایک نئے جز کے بنانے کے وقت آپ مشاہدہ کریں، چنانچہ یہ دائرہ نما شکل اپنے اطراف میں ملیونوںالٹے چکر لگاتی رہتی ھے جو آخر میں ایک بغیر بنی رسی نما بن جاتی ھے ، چنانچہ آج کا سائنس ابھی تک اس بات کو کشف کرنے سے عاجز ھے کہ اس میں ایسی طاقت کھاں سے آئی ؟!

اسی طرح کسی قادر کی قدرت کے ذریعہ اس چیز میں دو شگاف هوجاتے ھیں وہ بھی اس طرح جیسے کسی آری سے دوٹکڑے کردئے گئے هوں، اور ملیونوں مرتبہ یہ شگاف پیدا هوتا ھے تب جاکے کھیں اس ذرہ کی پیدائش هوتی ھے، اور پھر اس پردہ کی طرف سے جزئیات کے اندر یا شوگر، فوسفات، آڈینین، ثیمین، غوانین اور سیٹوسین کے اندر داخل هوتا ھے ، اور یہ تمام سوائے فوسفات کے علاوہ جادوئی طریقہ سے بن جاتے ھیںاس کے بعد اپنی شکل کے اطراف میں گھومنے لگتے ھیں، جبکہ ان میں سے بعض تو اس شکل کے دوسری (بیرونی) طرف گھومتے ھیں جن کی وجہ سے شوگر اور فوسفات بنتے ھیں اور ان سب سے مل کر اس کے دوبڑے جزء بنتے ھیں ، اور اس کے بعد ان عملیات کی دس کروڑبار تکرار هوتی ھے تب جاکے ایک شکل بنتی ھے اور پھر دسیوں کروڑ بار یہ عملیات جاری هوتے ھےں اسی طریقہ سے اس کی شکلیں بنتی جاتی ھیں تاکہ پروٹن کے ذرات تشکیل پائیں۔

جبکہ D.N.A. کے اجزاء انسان سے مخصوص نھیں ھیں بلکہ یہ تمام زندہ چیزوںکے مکروب سے لے کر حشرات او رھاتھی وغیرہ میں بھی پائے جاتے ھیں اور یھی اساسی او ربنیادی اجزاء ھیں جن کی بنا پرحیات مکمل هوتی ھے۔

حالانکہ علم کیمیاء نے اس بات کی وضاحت کی ھے کہ وہ قواعد جن کی بنا پر تمام چیزوں میںجو لازمی اجزاء هوتے ھیں تو وہ تمام کائنات میں ان کی ترکیب میں اختلاف نھیں هوتا، تو پھر سوال یہ پیدا هوتا ھے کہ یہ تمام کائنات کی چیزیں ایک دوسرے سے الگ کیوں ھیں؟!!

چنانچہ بعض ماھرین نے اس اختلاف کی وجہ یہ بتائی ھے کہ D.N.A.کے اجزاء کی مقدار اور گذشتہ چار قواعد کی بنا پر ان تمام چیزوں میں اختلاف پایا جاتا ھے۔

لیکن کسی بھی ماھر نے کوئی ایسی مطمئن بات نھیں بتائی جس کوانسان قبول کرسکے۔

کیونکہ جن ماھرین نے حیات کے اسرار کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھیں ھیں ان سب میں ”شاید“ ، ”بالفرض“ ،”بسااوقات“ جیسے الفاظ استعمال کئے ھیں مثلاً شاید اس کی وجہ یہ ھے ،بالفرض اس کی وجہ یہ هو، جو اس بات پر بہترین دلیل ھے کہ وہ ابھی تک حیاتی اسرار سے پردہ نھیں اٹھاپائے ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 next