خالق ازلی کے وجود کی ضرورت



 Ø§Ù† پرندوں Ú©ÛŒ غذا Ú©ÛŒ طرح ان Ú©ÛŒ چونچ بھی الگ الگ طرح Ú©ÛŒ هوتی ھیں ان میں جو شکاری پرندے هوتے ھیں ان Ú©ÛŒ چونچ قوی اور لمبی هوتی Ú¾Û’ تاکہ گوشت Ú©Ùˆ خوب کوٹ لیں اور ”بطخ“ اور” ہنس“ Ú©ÛŒ Ú†ÙˆÚ‘ÛŒ چونچ هوتی ھیں تاکہ وہ اپنی غذا مٹی اور پانی دونوں سے تلاش کرسکیں اور چونچ Ú©Û’ اطراف میں چھوٹی چھوٹی Ú©Ú†Ú¾ اضافی چیز بھی هوتی Ú¾Û’ (جس طرح چھوٹے چھوٹے دانت) جو ان Ú©ÛŒ غذا Ú©Û’ کاٹنے میں مدد کرتی ھیں لیکن چڑیا ،کبوتر اور دوسرے پرندوں Ú©ÛŒ چونچ چھوٹی هوتی ھیں تاکہ وہ اپنے ہدف تک پهونچ سکیں۔

ان کے علاوہ بھی ھم اس مخلوقات کی عظیم او رمنظم چیزوں کا مشاہدہ کرتے ھیں مثلاً حیوانات کے پیر، جن کی وجہ سے حیوان چلتا پھرتا، دوڑتااور بوجھ اٹھاتا ھے، کیونکہ یھی پیر حیوان کو تیز دوڑنے کی صلاحیت عطا کرتے ھیں اورحیوان کے ھر پیر میںکُھر هوتے ھیں جو دوڑتے وقت احتمالی ضرر سے محفوظ رکھتے ھیں۔

لیکن گائے اور بھینس کے پیر چھوٹے اور مضبوط هوتے ھیںجن میں کھُر هوتے ھیں جو زراعتی اور نرم زمین پر چلنے میں مدد کرتے ھیں، اسی طرح اونٹ کے پیر اس قسم کے هوتے ھیں جو اس کو ریت پر چلنے میں مدد کرتے ھیں اسی طرح اس کے پیروں پر موٹی اورسخت کھال هوتی ھے جو اس کو کنکریوں اور ریت پر بیٹھنے میں مدد کرتی ھے۔

اسی طرح پرندوں کے پیر بھی ان کی طبیعت کے لحاظ سے مختلف هوتے ھیں چنانچہ ان میں سے بعض گوشت خوار هوتے ھیں اور ان کے پنچے سخت او رمضبوط هوتے ھیں تاکہ وہ شکار کرنے میں ان کی مدد کریں جیسے باز اور گدھ،لیکن وہ پرندے جو اناج اور دیگر دانے وغیرہ کھاتے ھیں جیسے مرغ اور کبوتر ان کے پنچوں میں ا یسے ناخن هوتے ھیں جن سے صرف زمین کھود سکتے ھیں (تاکہ اس میں چھپے دانوں کو نکال سکےں)، لیکن وہ حیوانات جو اپنی غذا پانی میں تلاش کرنے پر مجبور ھیں ان کی انگلیوں کے درمیان ایک پردہ هوتا ھے جس کی وجہ سے وہ پانی میں تیر کر اپنی غذا تلاش کرتے ھیں۔

اسی طرح انھی عجیب وغریب خلقت میں سے مینڈھک کی خلقت بھی ھے ، کیونکہ اس کی زبان دوسرے زندہ موجودات سے لمبی هوتی ھے اور اس کی لمبائی اس کے قدکے نصف هوتی ھے اور اس میں چپک هوتی ھے جس سے وہ مکھیوں کا آسانی سے شکار کرتا ھے، کیونکہ مینڈھک بالکل کوئی حرکت نھیں کرتا مگر یہ کہ مکھی اس کے قریب هوجائے اور جب زبان باھر نکالتا ھے تو اپنے سامنے موجود مکھیوں کا شکار کرلیتا ھے۔

اور واقعاً مینڈھک میں یہ بات کتنی عجیب ھے کہ اگر اس میں وہ گردن نہ هوتی جس سے وہ اپنے سر کو حرکت دے کر اپنے اطراف میں دیکھتا ھے تو پھر اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں جو چاروں جانب (گردن کے حرکت کرنے کی بنا پر) حرکت کرتی ھیں۔

قارئین کرام !  آج Ú©Û’ سائنس Ù†Û’ یہ بات کشف Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ اکثر پستاندار "Mammals"حیوانات میں” قوہٴ شامہ“ (سونگھنے Ú©ÛŒ قوت)قوی هوتی Ú¾Û’ برخلاف قوت باصرہ Ú©Û’ØŒ جبکہ پرندوں میں دیکھنے Ú©ÛŒ قوت زیادہ تیز اور قوی هوتی Ú¾Û’ اور اس کا راز یہ Ú¾Û’ کہ حیوانات Ú©ÛŒ غذا معمولاً زمین پر هوتی Ú¾Û’ اور وہ اس Ú©Ùˆ سونگھ کر حاصل کرسکتے ھیں لیکن پرندے معمولاً آسمان میں پرواز کرتے ھیں لہٰذا ان Ú©Ùˆ اپنی غذا Ú©ÛŒ تلاش میں تیز آنکھوں Ú©ÛŒ ضرورت هوتی Ú¾Û’ØŒ تاکہ وہ دور سے اپنی غذا Ú©Ùˆ دیکھ سکیں۔

 Ù„یکن ”مُحّار“(ایک دریائی حیوان) جس Ú©ÛŒ آنکھیں ھماری طرح هوتی ھیں البتہ ھماری صرف دو آنکھیں هوتی ھیں لیکن اس Ú©ÛŒ کئی عدد هوتی ھیں اور ان میں لاتعداد چھوٹی چھوتی پتلیاں  هوتی ھیں جن کا احصاء ممکن نھیں ØŒ اور کھا یہ جاتا Ú¾Û’ کہ ان Ú©ÛŒ مدد سے داہنے سے اوپر Ú©ÛŒ طر ف دیکھ سکتی ھیں، اور چھوٹی چھوٹی پتلیاں انسانی آنکھوں میں نھیں پائی جاتیں، تو کیا یہ پتلیاں اس محار میں اس وجہ سے هوتی ھیں کہ اس میں انسان Ú©ÛŒ طرح سوچنے Ú©ÛŒ صلاحیت نھیں هوتی؟ اسی طرح  کھا یہ جاتا Ú¾Û’ کہ بعض حیوانوں میں دو آنکھیں اور بعض میں ہزار آنکھیں هوتی ھیں جو سب Ú©ÛŒ سب الگ هوتی ھیں تو کیا طبیعت علم مرئیات میں اتنے عظیم مرتبہ پر فائز ھے۔؟! یعنی کیا یہ تمام Ú©ÛŒ تمام دقیق اور حساب شدہ چیزیں بغیر کسی خالق Ú©Û’ وجود میں آسکتی ھیں؟!!

اسی طرح مچھلی میں عجیب وغریب حس پائی جاتی ھے جس کی بنا پر دریاؤں کے پتھروں اور دوسری چیزوں سے نھیں ٹکراتی ، چنانچہ بعض ماھرین نے اس سلسلہ میں غور وخوض کرکے یہ نتیجہ پیش کیا ھے کہ مچھلی کے دونوں طرف ایک طولانی خط (لکیر) هوتا ھے ، جبکہ یہ خط اتنا باریک هوتا ھے کہ صرف دوربین ھی کے ذریعہ دیکھا جاسکتا ھے اور اس میں قوت حس کے بہت سے اعضاء هوتے ھیں چنانچہ مچھلی انھیں کے ذریعہ پتھر یا کسی دوسری چیز کا احساس کرلیتی ھے جب پانی پتھروں اور دوسری چیزوں سے ٹکراتا ھے اور یہ پتھر وغیرہ کو دیکھ کر اپنا راستہ بدل دیتی ھے۔

اسی طرح چمگادڑکی خلقت بھی کتنی عجیب وغریب ھے جیسا کہ ماھرین نے اس پر توجہ دلائی ھے، یہ چمگادڑ رات میں اڑتا ھے لیکن اپنے راستہ میں کسی مکان ، درخت یا کسی دوسری چیز سے نھیں ٹکراتا،چنانچہ اٹلی کے ایک ماھراور سائنسداں نے اس کی قدرت کے سلسلہ میں تحقیق کی، اس نے ایک کمرے میں کچھ رسیاں باندھیں، ھر رسی میں ایک چھوٹی گھنٹی باندھی کہ اگر رسی سے کوئی بھی چیز ٹکرائے تو وہ گھنٹی بجنے لگے ، اس کے بعد اس نے کمرے کو بالکل بند کردیا اور اس میں چمگادڑ کو چھوڑ دیا چنانچہ چمگادڑ اس کمرے میں اڑنے لگا لیکن کسی بھی گھنٹی کی کوئی آواز سنائی نہ دی، یعنی وہ کسی بھی رسی سے نھیں ٹکرایا ، اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ چمگادڑ میں ایسی طاقت هوتی ھے کہ جب وہ اڑتاھے تو اس کے اندر سے ایک ایسی آواز نکلتی ھے جو کسی بھی چیز سے ٹکراکر واپس آتی ھے اور اسی واپس آئی آواز کے ذریعہ وہ اس چیز کا احساس کرلیتا ھے ، پس ثابت یہ هوا کہ اس کے احساس کا طریقہ بالکل ”راڈار“ کی طرح ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 next