آیہٴ بلّغ کی وضحات



۲۴۔ شیخ محمد عبدہ[65]

آیہٴ بلّغ کے بارے میں شیعہ نظریہ

شیعہ اس بات پر عقیدہ رکھتے ھیں کہ آیہ بلّغ حضرت علی علیہ السلام Ú©ÛŒ ولایت سے متعلق Ú¾Û’ اور <مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ>  کا مصداق حضرت امیر المومنین علیہ السلام Ú©ÛŒ ولایت Ú¾Û’ØŒ کیونکہ:

اول: خداوندعالم نے اس سلسلہ میں اتنا زیادہ اہتمام کیا کہ اگر اس حکم کو نہ پھنچایا تو گویا پیغمبر نے اپنی رسالت ھی نھیں پھنچائی، اور یہ امر حضرت علی علیہ السلام کی زعامت، امامت اور جانشینی کے علاوہ کچھ نھیں تھا اور یہ عہدہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وحی کے علاوہ تمام ذمہ داریوں کا حامل ھے۔

دوسرے: مذکورہ آیت سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لئے اس امر کا پھنچانا دشوار تھا کیونکہ اس چیز کا خوف پایا جاتا تھا کہ بعض لوگ اس حکم کی مخالفت کریں گے، اور اختلاف و تفرقہ بازی کے نتیجہ میں آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی ۲۳ سالہ زحمتوں پر پانی پھر جائے گا، اور یہ مطلب (تاریخ کی ورق گردانی کے بعدمعلوم ھوجاتا ھے کہ) حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت کے اعلان کے علاوہ اور کچھ نھیں تھا۔

قرآنی آیات Ú©ÛŒ مختصر تحقیق Ú©Û’ بعد معلوم ھوجاتا Ú¾Û’ کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)نبوت پر عہد Ùˆ پیمان رکھتے تھے[66] اور خداوندعالم Ú©ÛŒ طرف سے صبر Ùˆ استقامت پر مامور تھے۔[67]اسی وجہ سے آنحضرت  Ù†Û’ دین خدا Ú©ÛŒ تبلیغ اور پیغام الٰھی Ú©Ùˆ پھنچانے میں ذرا بھی کوتاھی نھیں Ú©ÛŒ Ú¾Û’ØŒ اور نا معقول درخواستوں اور مختلف بھانہ بازیوں Ú©Û’ سامنے سر تسلیم خم نہ کیا۔[68] پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ù†Û’ پیغامات الٰھی Ú©Ùˆ پھنچانے میں ذرا بھی کوتاھی نھیں Ú©ÛŒ یھاں تک کہ جن موارد میں آنحضرت   Ú©Û’ لئے سختی اور دشواریاں تھیں جیسے زوجہ زید، زینب کا واقعہ [69]اور مومنین سے حیا کا مسئلہ[70] یا مذکورہ آیت Ú©Ùˆ پھنچانے کا مسئلہ، ان تمام مسائل میں آنحضرت  (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ú©Ùˆ اپنے لئے کوئی خوف نھیں تھا۔

لہٰذا پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی پریشانی کو دوسری جگہ تلاش کرنا چاہئے، (نہ قتل کے خوف میں) اور وہ اس پیغام کے مقابل منافقین کے جھٹلانے کے خطرناک نتائج اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعض اصحاب کے عکس العمل کے منفی اثراث تھے جس کی وجہ سے ان کے اعمال ضبط ھوگئے اور منافقین کے نفاق و کفر میں اضافہ ھوا اور دوسری طرف ان کی تکذیب اور کفر کی وجہ سے رسالت کا آگے بڑھنا یھاں تک اصلِ رسالت ناکام رہ جاتی اور دین ختم ھوجاتا۔

تیسرے: آیہ ”اکمال“ کی شان نزول کے بارے میں شیعہ اور سنی طریقوں سے صحیح السند روایات بیان ھوئی ھیں کہ یہ آیت حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں نازل ھوئی ھیں۔

نتیجہ یہ ھوا کہ <مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ> سے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت مراد ھے جس کو پھنچانے کا حکم آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو دیا گیا تھا۔

اعتراضات کی چھان بین

بعض علمائے اھل سنت نے دوسری تاویلات کرنے کی کوشش کی ھے جس سے مسئلہ غدیر سے آیت کا کوئی تعلق نہ ھو، اور یہ آیت حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل میں سے شمار نہ ھو، اب ھم یھاں پر ان تاویلات کی چھان بین کرتے ھیں:

۱۔ آیت کا نزول مدینہ میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی حفاظت کے لئے ھوا تھا

اھل سنت بعض روایات کی بناپر کہتے ھیں: اس آیت کے نازل ھونے سے پھلے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی حفاظت کی جاتی تھی، لیکن اس آیت کے نازل ھونے کے بعد خداوندعالم نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی اور محافظوں کے لئے(جنگ میں نہ جانے کے لئے) کوئی بھانہ نہ چھوڑا، چنانچہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next