آیہٴ بلّغ کی وضحات



Û²Û”  شرط Ú©ÛŒ اھمیت کا بیان

آیت کا یہ فقرہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لئے ایک دھمکی کے عنوان سے بیان ھوا ھے، کیونکہ آیت کا یہ فقر ہ: <وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ>، شرطیہ ھے، جو درحقیقت اس حکم کی اھمیت کو بیان کرتا ھے، یعنی اگر یہ حکم نہ پھنچایا گیا اور اس کے حق کی رعایت نہ کی گئی تو گویا دین کے کسی بھی جز کی رعایت نھیں ھوئی، نتیجہ یہ ھوا کہ جملہ شرطیہ، شرط کی اھمیت کو بیان کرنے کے سلسلہ میں جزا (یعنی نتیجہ) کے مرتب ھونے کے لئے مھم ھوتا ھے، لہٰذا اس قسم کے جملہ شرطیہ کو گفتگو میں رائج دوسرے شرطیہ جملوں کی طرح قرار نھیں دیا جاسکتا، کیونکہ عام طور پر شرطیہ جملے وھاں استعمال ھوتے ھیں کہ جھاں انسان جزا کے متحقق ھونے سے غافل ھو، کیونکہ شرط کے متحقق ھونے کا علم نھیں ھوتا؛ لیکن پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے حق میں یہ احتمال صحیح نھیں ھے[2]

۳۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو کیا خوف تھا؟

چونکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)شجاع اور بھادر تھے، اور اسلام کے اہداف و مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نھیں کرتے تھے، لہٰذا مذکورہ آیت کے پیش نظر جو خوف پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو لاحق تھا وہ اپنی ذات سے متعلق نھیں تھا، بلکہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا خوف اسلام اور رسالت کے بارے میں تھا۔

۴۔ ”الناس“ سے کیا مراد ھے؟

اگرچہ فخر رازی جیسے افراد Ù†Û’ اس بات Ú©ÛŒ کوشش Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ آیت Ú©Û’ ذیل میں قرینہ Ú©ÛŒ وجہ سے ”ناس “ (یعنی لوگوں) سے مراد کفار ھیں، جیسا کہ ارشاد ھوتا Ú¾Û’:  <إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ>ØŒ لیکن یہ معنی لفظ ”ناس“ Ú©Û’ ظاھر Ú©Û’ برخلاف ھیں، کیونکہ ”ناس“ میں کافر اور مومن دونوں شامل ھیں، اور کفار سے مخصوص کرنے Ú©ÛŒ کوئی وجہ نھیں Ú¾Û’ØŒ لہٰذا آیت میں لفظ ”کافرین“ سے مراد ”کفر کا ایک مرتبہ“ مراد لیا جائے جس میں حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ú©Û’ زمانہ Ú©Û’ منافقین بھی شامل ھوجائیں جن سے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ú©Ùˆ ڈر تھا۔

۵۔ عصمت کے معنی

گزشتہ بیانات کے مطابق ”عصمت الٰھی“ جس کا وعدہ خداوندعالم نے اپنے پیغمبر سے کیا ھے، اس سے مراد عصمت کی وہ قسم ھے جو رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے خوف سے مناسبت رکھتی ھو، اور یہ وہ عصمت ھے جس کے بارے میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی نبوت پر ایسی تھمت لگانا جو آپ کی نبوت سے مطابقت نہ رکھتی ھو۔

روایات کی چھان بین

قارئین کرام!  اب Ú¾Ù… یھاں پر آیہٴ بلغ Ú©ÛŒ تفسیر میں حضرت علی علیہ السلام Ú©ÛŒ شان میں فریقین Ú©Û’ طریقوں سے بیان ھونے والی روایات Ú©ÛŒ طرف اشارہ کرتے ھیں:

۱۔ ابو نعیم اصفھانی کی روایت

ابو نعیم نے ابوبکر خلاد سے، انھوں نے محمد بن عثمان بن ابی شیبہ سے، انھوں نے ابراھیم بن محمد بن میمون سے، انھوں نے علی بن عابس سے ، انھوں نے ابو حجّاف و اعمش سے، انھوں نے عطیہ سے، انھوں نے ابی سعید خدری سے نقل کیا ھے کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر یہ آیہ شریفہ: <یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ> حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے[3]

سند کی چھان بین

ز  ابوبکر بن خلاد: یہ ÙˆÚ¾ÛŒ احمد بن یوسف بغدادی ھیںکہ خطیب بغدادی Ù†Û’ ان سے ”سننے“ Ú©Ùˆ صحیح مانا Ú¾Û’ØŒ اور ابونعیم ابن ابی فراس Ù†Û’ ان کا تعارف ثقہ Ú©Û’ نام سے کرایا Ú¾Û’[4] اور ذھبی Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ ”شیخ صدوق“ (یعنی بہت زیادہ سچ بولنے والے استاد) کا نام دیا Ú¾Û’[5]

ز محمد بن عثمان بن ابی شیبہ: ان کو ذھبی نے علم کا ظرف قرار دیا ھے اور صالح جزرہ نے ان کو ثقہ شمار کیا ھے، نیز ابن عدی کہتے ھیں: میں نے ان سے حدیث منکر نھیں سنی جس کو ذکر کروں[6]

ز ابراھیم بن محمد بن میمون: ابن حیان نے ان کا شمار ثقہ راویوں میں کیا ھے[7]، اور کسی نے ان کو کتب ضعفاء میں ذکر نھیں کیا ھے، اگر ان کے لئے کوئی عیب شمار کیا جاتا ھے تو اس کی وجہ یہ ھے کہ انھوں نے اھل بیت علیھم السلام مخصوصاً حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کو بیان کیا ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next