آیہٴ بلّغ کی وضحات



ز علی بن عابس: یہ صحیح ترمذی کے صحیح رجال میں سے ھیں[8] اگر ان کے متعلق کوئی عیب تراشا جاتا ھے تو ان کے شاگردوں کی طرح اھل بیت علیھم السلام کے فضائل نقل کرنے کی وجہ سے؛ لیکن ابن عدی کے قول کے مطابق ان کی احادیث کو لکھنا صحیح ھے[9]

ز ابو الحجّاف: ان کا نام داؤد بن ابی عوف ھے، موصوف ابی داؤد، نسائی اور ابن ماجہ کے رجال میں شمار ھوتے ھیں، کہ احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نے ان کو ثقہ مانا ھے، اور ابو حاتم نے بھی ان کو صالح الحدیث قرار دیا ھے[10] اگرچہ ابن عدی نے ان کو اھل بیت علیھم السلام کے فضائل و مناقب میں احادیث بیان کرنے کی وجہ سے ضعیف شمار کیا ھے[11]

ز اعمش: موصوف کا شمار صحاح ستہ کے رجال میں ھوتا ھے[12]

نتیجہ یہ ھوا کہ اس حدیث کے سارے راوی خود اھل سنت کے مطابق معتبر ھیں۔

۲۔ ابن عساکر کی روایت

ابن عساکر نے ابو بکر وجیہ بن طاھر سے، انھوں نے ابو حامد ازھری سے، انھوں نے ابو محمد مخلّدی حلوانی سے، انھوں نے حسن بن حمّاد سجّادہ سے، انھوں نے علی بن عابس سے، انھوں نے اعمش اور ابی الجحاف سے، انھوں نے عطیہ سے انھوں نے سعید خدری سے نقل کیا کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر یہ آیہ شریفہ: <یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ>، روز غدیر خم میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے[13]

سند کی چھان بین

ز وجیہ بن طاھر: ابن جوزی نے ان کو شیخ صالح و صدوق[14] اور ذھبی نے شیخ عالم و عادل کے نام سے سراھا ھے[15]

ز ابو حامد ازھری: موصوف وھی احمد بن حسن نیشاپوری ھیں جن کو ذھبی نے عادل اور صدوق کے نام سے یاد کیا ھے[16]

ز ابو محمد مخلّدی: حاکم نے ان سے حدیث کا سننا صحیح قرار دیا ھے، اور روایت میں مستحکم شمار کیا ھے[17] اور ذھبی نے بھی ان کو شیخ صدوق اور عادل قرار دیا ھے[18]

ز ابوبکر محمد بن ابراھیم حلوانی: خطیب بغدادی نے ان کو ثقہ شمار کیا ھے[19] حاکم نیشاپوری نے ان کو ثقہ راویوں میں مانا ھے[20]اور ذھبی نے ان کو حافظ ثبت کے عنوان سے یاد کیا ھے[21] نیز ابن جوزی نے ان کو ثقہ قرار دیا ھے[22]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next