آیہٴ بلّغ کی وضحات



ز حسن بن حماد سجادہ:موصوف ابی داؤد، نسائی اور ابن ماجہ کے رجال میں سے ھیں جن کے بارے میں احمد بن حنبل نے کھا: ”ان سے مجھ تک خیر کے علاوہ کچھ نھیں پھنچا“[23] ذھبی نے ان کو جید علما اور اپنے زمانہ کے ثقہ راویوں میں سے مانا ھے[24]، نیز ابن حجر نے ان کو صدوق کے نام سے یاد کیا ھے[25]اور باقی سند کے رجال کی چھان بین گزشتہ حدیث میں ھوچکی ھے۔

Û³Û”  واحدی Ú©ÛŒ روایت

واحدی ابو سعید محمد بن علی صفّار نے حسن بن احمد مخلدی سے، انھوں نے محمد بن حمدون سے، انھوں محمد ابراھیم خلوتی (حلوانی) سے، انھوں نے حسن بن حماد سجادہ سے، انھوں نے علی بن عابس سے، انھوں نے اعمش اور ابی جحّاف سے، انھوں نے عطیہ سے اور انھوں ابی سعید خدری سے نقل کیا ھے کہ یہ آیہ شریفہ: <یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ> روز غدیر خم میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی۔

سند کی چھان بین

محمود زعبی نے اپنی کتاب ”البیّنات فی الردّ علی المراجعات“ میں اس حدیث کی سند پر صرف یہ اعتراض کیا ھے کہ اس کی سند میں عطیہ شامل ھے۔

چنانچہ ان کا کھنا ھے:

”عطیہ کو امام احمد (بن حنبل) نے ”ضعیف الحدیث“ مانا ھے، اور ابو حاتم نے بھی اس کی تضعیف کی ھے، اور ابن عدی نے اس کو شیعیان کوفہ میں شمار کیا ھے۔“

لیکن یہ تضعیف یقینی طور پر صحیح نھیں ھیں، کیونکہ:

اول: عطیہ عوفی تابعین میں سے ھیں جن کے بارے میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے مدح کی ھے۔

دوسرے: ”الاٴدب المفرد“ میں بخاری، اور صحیح ابی داؤد، صحیح ترمذی، صحیح ابن ماجہ اور مسند احمد کے رجال میں ان کا شمار ھوتا ھے، اور علمائے اھل سنت نے بہت زیادہ مدح کی ھے۔

لیکن جوزجانی جیسے لوگوں نے ان کو ضعیف مانا ھے جو خود ناصبی ھونے اور حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے منحرف ھونے میں مشھور ھے، اور اس کی تضعیف کرنا بھی اسی وجہ سے کہ موصوف حضرت علی علیہ السلام کو سبھی (صحابہ) ترجیح دیتے تھے، اور جب حجاج کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام پر لعن و طعن کرنے کا حکم دیا گیا تو انھوں نے قبول نھیں کیا، جس کے نتیجہ میں ان کو ۴۰۰ کوڑے لگائے گئے اور ان کی داڑھی کو بھی مونڈ دیا گیا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next