اسلام اور مغرب کی نظر میں دہشت گردی - پهلا حصه

سید حسین حیدر زیدی


یقینا ”دہشت گردی“ کی اصطلاح ، ایک جدید اصطلاح ہے جس کے متلعق صدر اسلام میں کوئی بحث نہیں ہوئی ہے، لیکن آیات، روایات اور فقہاء کی عبارت میں کچھ ایسی تعبیرات ملتی ہیںجو اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ اسلام نے انسان کی زندگی کے ایسے پہلووں پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اسلامی متون میں ایسی عبارتیں موجود ہیں جو دہشت گردی کے مفہوم سے نزدیک ہیں ،اس حصہ میں کچھ مفاہیم کی طرف اشارہ کریں گے تاکہ محققین مفصل بحث کرنے کے لئے اپنی تحقیق و جستجو کو آگے بڑھاسکیں ۔

 

الف :  قرآن Ú©ÛŒ نظرمیں دہشت گردی

قرآن کریم میں ایک بہت اہم مفہوم ”ارھاب“ ہے جس Ú©ÛŒ بناء پر بعض لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اسلام پر دہشت گردی کا Ø­Ú©Ù… لگائیں، اگر چہ قرآن کریم میں لفظ ”ارھاب“ یا ارھابیون“ نہیں آیا ہے لیکن اس Ú©Û’ مشتقات ØŒ مختلف صیغوں میں بیان ہوئے ہیں Û” لیکن اس بات Ú©ÛŒ طرف توجہ ضروری ہے کہ ”ارھاب“ یا ”ارھابیون“ کا کوئی ایک صیغہ بھی عصر حاضر میں سیاست اس Ú©Û’ اس لفظ Ú©Û’ معنی میں نہیں ہے اور اس Ú©Û’ معنی ان دونوں سے کاملا مختلف ہیں(Û³Û°) Û”  اس بناء پر جو لوگ ان آیات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے دہشت گردانہ اعمال Ú©ÛŒ توجیہ کرتے ہیں وہ درست نہیں ہے اور نیز جو لوگ قرآن کریم میں اس طرح Ú©ÛŒ آیات کا بہانہ کرتے ہوئے دین اسلام Ú©Ùˆ دہشت گردی سے متہم کرتے ہیں وہ لوگ بھی غلطی سے کام لیتے ہیں Û” اس بات Ú©Ùˆ ثابت کرنے Ú©Û’ لئے قرآن کریم Ú©ÛŒ بعض آیات Ú©ÛŒ طرف اشارہ کرتے ہیں:

Û±Û”  یا بَنی إِسْرائیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِیَ الَّتی اٴَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ ÙˆÙŽ اٴَوْفُوا بِعَہْدی اٴُوفِ بِعَہْدِکُمْ ÙˆÙŽ إِیَّایَ فَارْہَبُون“۔ اے بنی اسرائیل ہماری نعمتوں Ú©Ùˆ یاد کرو جو ہم Ù†Û’ تم پر نازل Ú©ÛŒ ہیں اور ہمارے عہد Ú©Ùˆ پورا کرو ہم تمہارے عہد Ú©Ùˆ پورا کریں Ú¯Û’ اور ہم سے ڈرتے رہو۔(سورہ بقرہ ،آیت Û´Û°) Û” اس آیت میں ”فارھبون “ Ú©Û’ معنی خوف Ùˆ ہراس Ú©Û’ بیان ہوئے ہیں Û”

Û²Û”  ”قالَ اٴَلْقُوا فَلَمَّا اٴَلْقَوْا سَحَرُوا اٴَعْیُنَ النَّاسِ ÙˆÙŽ اسْتَرْہَبُوہُمْ ÙˆÙŽ جاؤُ بِسِحْرٍ عَظیمٍ“۔ موسٰی علیہ السّلامنے کہا کہ تم ابتدا کرو -ان لوگوں Ù†Û’ رسیاں پھینکیں تو لوگوں Ú©ÛŒ آنکھوں پر جادو کردیا اور انہیں خوفزدہ کردیا اور بہت بڑے جادو کا مظاہرہ کیا(سورہ اعراف، آیت Û±Û±Û¶) Û” یہاں پر بھی ” استرھبوھم“ Ú©Û’ معنی یہ ہیں کہ جادوگر ØŒ لوگوں Ú©Ùˆ خوف Ùˆ ہراس میں ڈالتے تھے Û”

Û³Û”  ”وَ لَمَّا سَکَتَ عَنْ مُوسَی الْغَضَبُ اٴَخَذَ الْاٴَلْواحَ ÙˆÙŽ فی نُسْخَتِہا ہُدیً ÙˆÙŽ رَحْمَةٌ لِلَّذینَ ہُمْ لِرَبِّہِمْ یَرْہَبُون“ Û” اس Ú©Û’ بعد جب موسٰی کا غّصہ ٹھنڈا پڑگیا تو انہوں Ù†Û’ تختیوں Ú©Ùˆ اٹھالیا اور اس Ú©Û’ نسخہ میں ہدایت اور رحمت Ú©ÛŒ باتیں تھیں ان لوگوں Ú©Û’ لئے جو اپنے پروردگار سے ڈرنے والے تھے(سورہ ØŒ اعراف، آیت Û±ÛµÛ´) ۔اس آیت میں بھی ”یرھبون “ Ú©Û’ معنی یہ ہیں کہ ایسے لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور اس وجہ سے وہ گناہ نہیں گرتے ہیں اور جو Ú©Ú†Ú¾ ان الواح میں لکھا ہے اس پر عمل کرتے ہیں Û”

Û´Û”  ” ÙˆÙŽ اٴَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ ÙˆÙŽ مِنْ رِباطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُونَ بِہِ عَدُوَّ اللَّہِ ÙˆÙŽ عَدُوَّکُمْ ÙˆÙŽ آخَرینَ مِنْ دُونِہِمْ لا تَعْلَمُونَہُمُ اللَّہُ یَعْلَمُہُمْ ÙˆÙŽ ما تُنْفِقُوا مِنْ شَیْء ٍ فی سَبیلِ اللَّہِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ ÙˆÙŽ اٴَنْتُمْ لا تُظْلَمُونَ“ Û” اور تم سب ان Ú©Û’ مقابلہ Ú©Û’ لئے امکانی قوت اور Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘ÙˆÚº Ú©ÛŒ صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ Ú©Û’ دشمن -اپنے دشمن اور ان Ú©Û’ علاوہ جن Ú©Ùˆ تم نہیں جانتے ہو اور اللہ جانتا ہے سب Ú©Ùˆ خوفزدہ کردو اور جو Ú©Ú†Ú¾ بھی راہ ہخدا میں خرچ کرو Ú¯Û’ سب پورا پورا ملے گا اور تم پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا (سورہ انفال، آیت Û¶Û°) ۔یہاں پر ”ترھبون“ سے مراد یہ ہے کہ خدا Ú©Û’ دشمنوں Ú©Ùˆ اپنے آمادہ ہونے اور اپنی طاقت Ú©Û’ ذریعہ ڈراو تاکہ وہ تم لوگوں پر حملہ Ú©ÛŒ جرائت نہ کرسکیں Û”

ÛµÛ”  ” ÙˆÙŽ قالَ اللَّہُ لا تَتَّخِذُوا إِلہَیْنِ اثْنَیْنِ إِنَّما ہُوَ إِلہٌ واحِدٌ فَإِیَّایَ فَارْہَبُون“ Û”  اور اللہ Ù†Û’ کہہ دیا ہے کہ خبردار دو خدا نہ بناؤ کہ اللہ صرف خدائے واحد ہے لہذا مجھ ہی سے ڈرو Û”(سورہ نحل، آیت ÛµÛ±) Û” یہاں پر ”فارھبون“ Ú©Û’ معنی یہ ہیں کہ خدا Ú©Û’ عذاب سے ڈرواور کسی سے خوف کا احساس تک نہ کرو۔

Û¶Û”  ” فَاسْتَجَبْنا لَہُ ÙˆÙŽ وَہَبْنا لَہُ یَحْیی ÙˆÙŽ اٴَصْلَحْنا لَہُ زَوْجَہُ إِنَّہُمْ کانُوا یُسارِعُونَ فِی الْخَیْراتِ ÙˆÙŽ یَدْعُونَنا رَغَباً ÙˆÙŽ رَہَباً ÙˆÙŽ کانُوا لَنا خاشِعینَ“ Û”  تو ہم Ù†Û’ ان Ú©ÛŒ دعا Ú©Ùˆ بھی قبول کرلیا اور انہیں یحیٰی علیہ السّلام جیسا فرزند عطا کردیا اور ان Ú©ÛŒ زوجہ Ú©Ùˆ صالحہ بنادیا کہ یہ تمام وہ تھے جو نیکیوں Ú©ÛŒ طرف سبقت کرنے والے تھے اور رغبت اور خوف Ú©Û’ ہر عالم میں ہم ہی Ú©Ùˆ پکارنے والے تھے اور ہماری بارگاہ میں Ú¯Ú‘ گڑا کر الِتجا کرنے والے بندے تھے Û”  (سورہ انبیاء ØŒ آیت Û¹Û°) ۔اس آیت میں ”رغبت “ سے مراد ØŒ ثواب Ú©ÛŒ طرف رغبت پیدا کرنا ہے اور ” رھبہ“ بھی عذاب سے ڈرنے Ú©Û’ معنی میں ہے Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next