اسلام اور مغرب کی نظر میں دہشت گردی - دوسرا حصهسید حسین حیدر زیدیDeprecated: Function eregi_replace() is deprecated in /home/urdalshia/public_html/page.php on line 99 Deprecated: Function split() is deprecated in /home/urdalshia/public_html/page.php on line 103 بعض اسلامی فقہاء اور متفکرین کا نظریہ یہ ہے کہ ''محاربہ'' اور ''فساد فی الارض'' ایسے الفاظ ہیں جو لفظ دہشت گردی کے مترادف ہیں اور یہ کامل طور سے ایک دوسرے پر منطبق ہیں ۔ ب : روایات میں دہشت گردی اگرچہ قرآن کریم کی آیات میں کوئی ایسا لفظ نہیں مل سکتا جو دہشت گردی کا مترادف ہو ، یا ایسا مفہوم جو اس سے نزدیک ہو۔ لیکن شیعہ اور اہل سنت کی روایات میں ایسی کچھ عبارتیں ملتی ہیں اگر چہ ممکن ہے کہ وہ دہشت گردی کے بالکل مترادف نہ ہوں ، لیکن ان روایات کی بنیاد پر دہشت گردی سے متعلق اسلام کے نظریہ کو تلاش کیا جاسکتا ہے، کیونکہ روایات میں موجود بعض اصطلاحات ، دہشت گردی کے لفظ سے عام ہیں لیکن ان روایات سے دہشت گردی کے حکم کا استفادہ کیاجاسکتا ہے ۔ یہاں تک کہ ان روایات اور اس کے مختلف مصادیق کی بنیاد پر اسلامی نظریہ کو مد نظر رکھتے ہوئے دہشت گردی کی نئی تعریف پیش کی جاسکتی ہے ۔ روایات میں موجود بعض عناوین جن کو دہشت گردی کی بحث سے مربوط کیا جاسکتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں : ١۔ الفتک : یہ لفظ دہشت گردی سے نزدیک ہے ،اس کی وضاحت کے لئے پہلے اہل لغت کے کلام کو نقل کریں گے تاکہ اس کے معنی واضح ہوجائیں اس کے بعد بعض روایات کی طرف اشارہ ہوگا: جوہری نے اپنی لغت میں اس لفظ کے متعلق لکھا ہے : والفتک : ''ان یاتی الرجل صاحبہ و ھو غار غافل حتی یشد علیہ فیقتلہ '' (١) ۔ فتک یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ساتھ چلنے والے کو غافل پائے اور اچانک اس پر حملہ کرے اور اس کو قتل کردے ۔ دوسرے اہل لغت نے بھی ''فتک'' کی یہی تعریف بیان کی ہے لیکن بعض مولفین نے اس لفظ کو خاص معنی عطاکئے ہیں اور اس کی تعریف میں کہا ہے : '' فتک یہ ہے کہ اچانک حملہ کرکے کسی کو قتل کردیا جائے ، چاہے وہ اسلحہ کے ذریعہ ہو یا بغیر اسلحہ کے، چاہے سیاسی امو ر میں ہو یا غیر سیاسی(٢) ۔ وہ روایاتیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے مندرجہ ذیل ہیں : ان روایات کی بنیاد پر جن سے فقہاء نے بھی استناد کیا ہے (٣) ۔ ابوصباح کنانی نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کیا : میرا ایک پڑوسی ہے جس کا نام جعد بن عبداللہ ہے اور وہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے متعلق بدگوئی کرتا ہے ، اس نے امام سے اجازت مانگی کہ میں کمین گاہ میں بیٹھ جائوں اور مناسب وقت پاکر اس کو قتل کردوں ۔ امام علیہ السلام نے ابوصباح کو اس کام سے منع کیا اور فرمایا: '' یا اباالصباح ! ھذا الفتک و قد نھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)عن الفتک۔ یا اباالصباح ! ان الاسلام قید الفتک ولکن دعہ فستکفی بغیرک '' (٤) ۔ اے ابوصباح ! اس عمل کو فتک کہتے ہیں اور سول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فتک سے منع کیا ہے ۔ اے ابوصباح ! اسلام نے فتک کو قید کردیا ہے ،اس کو
|