فلسطینی انتفاضہ(تحریک)، انقلاب اسلامی ایران کا نتیجہ



ان مشکلات اور ان نابسامانیوں اور فلسطین کے مسئلہ کو ایک قومی مسئلہ میں محدود کرنے کی وجہ سے فلسطین کی عوام کی ایک مستقل اور متحد ملک کی تشکیل کی طرف راہنمائی نہ ہوسکی، اسرائیلی حکومت کی بنیادوں کی مضبوطی اور عرب حکومتوں کے اسرائیل کے ساتھ روابط نے آہستہ آہستہ اس طرح کے مبارزات سے نااُمید کردیا، لیکن ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی، دینی تفکرات کی تجدید حیات اور دین کے اجتماعی سیاسی مسائل کے جواب گو ہونے کے ادراک نے فلسطینی عوام کے اسرائیل کے خلاف مبارزوں کو صحیح اور اصلی راستہ کی نشان دہی کی یعنی اس راستے کی نشاندہی جس میں اسلامی اعقادات، سیاست اور اجتماع کے ساتھ عجین ہیں جسے فلسطینی عوام نے جلد ہی درک کرلیا کہ فلسطینی سرزمین کی آزادی کا راز فقط اسلام کے دامن میں مضمر ہے ۔

فلسطینیوں کے مبارزات کی ماہیت کی تبدیلی کو بہتر سمجھنے کے لئے ہم فلسطین میں ''انتفاضہ'' کے اسلامی اصول گرائی کے نتیجے کے عنوان سے وجود میں آنے کے سلسلے میں ایک جائزہ لیں گے ۔

 

انتفاضہ کی پیدائش کی وجوہات اور اُس کی زمینہ سازی

١۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی

حقیقت میں سن ١٩٦٧ء کی جنگ میں عربوں کا اسرائیل سے شکست کھانا گویا عربی نیشالیزم کی شکست تھی، اور فلسطینی عوام کے لئے کہ جنھوںنے سالہا سال سکولر تفکرات کی پیروی کی تھی، یہ تفکرات اور نظریات نااُمیدی کا سبب ہوگئے تھے، یہ اندرونی وجہ ایک طرف اور اسلامی انقلاب کی کامیابی دوسری طرف، ان دونوں نے مل کر فلسطینی عوام کو نئے طریقے سے مبارزے اور کوشش کرنے کی اُمید عطا کردی تھی ۔

سیاسی اور اجتماعی میدان میں اور بین الاقوامی سطح پر، اسلام کا ایک فعّال نظریہ اور آئڈیولوجی کے عنوان سے ظاہر ہونا کہ جو اسلامی جمہوریہ ایران کے قالب میں متجلی ہوا تھا اور اس اسلامی انقلاب کا فلسطینی آرزئوں سے ہمہ جانبہ دفاع، ان تمام یاس اور نااُمیدیوں کے لئے اُمید کی ایک کرن تھی ۔

اسلامی انقلاب کے کامیاب ہوتے ہی بلافاصلہ غزہ کی پٹی میں فلسطین کا جہاد اسلامی کا مرکز سرگرم عمل ہوگیا، امام خمینی کا ظہور فلسطینی روشن فکروں پر اثر انداز ہوا، نیز اس چیز کا بھی سبب ہوا کہ وہ امام خمینی کی تعلیمات کو جامہ عمل پہنانے کی جستجو کریں اور اس کا ایک نمونہ فلسطین میں بھی پیدا کریں ۔ پچاس، ساٹھ اور ستّر کی دہائیوں کے بعد کہ جن میں اسلام، فلسطین کے صفحہ سے بالکل صاف ہوگیا تھا دوبارہ اس جدید پشتیبان پر تکیہ کرتے ہوئے اسرائیل کے مقابلہ پر آمادہ ہوگیا، اس کے بعد سے جہاد کا اصول، مقصد کی راہ میں شہادت اور قربانی کہ جو شیعوں کی نشانی اور انقلاب کا نعرہ تھا، فلسطین کے بنیادی اصول کے عنوان سے جانا جانے لگا(٤)

''جہاد اسلامی فلسطینی'' کے ترجمان نے امام خمینی سے آذر ماہ ١٣٦٧ھ شمسی میں ملاقات کے بعد اس طرح اظہار خیال کیا:

اب ہماری ملّت اسلام کے نام اور ذکر سے ایک نئے مبارزہ میں داخل ہوگئی ہے... مبارک اور اسلامی انتفاضہ کہ جس کا ہم حال حاضر میں فلسطین کے اسلامی ملک میں مشاہدہ کررہے ہیں، وہ نور کا ایک پرتو اور تمھارے بزرگ انقلاب کی کامیابی کی صدائے بازگشت ہے(٥)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next