معتزلہ کی نظر میں قرآن کا اعجاز

حسین حیدر زیدی


ابو علی جبائی (٨١): ابو علی جبائی کی اس وقت کوئی کتاب موجود نہیں ہے ، لیکن قاضی عبدالجبار نے کتاب '' المغنی'' میں جگہ جگہ ابوعلی کب کتاب کا ذکر کیا ہے، منجملہ وہ کہتے ہیں : ہمارے شیخ ابوعلی قائل ہیں کہ طویل کلام اور کثیر تالیف میں جس نے علوم کو سیکھا ہو اس شخص کے لئے تناقض و اختلاف کو رفع کرنا بعید ہے لہذا قرآن کریم، خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف سے نہیں ہوسکتا جو کہ خود عالم بنفسہ ہے (٨٣) ۔

لیکن اعجاز قرآن کریم کے متعلق ابوعلی جبائی کا جو قول مشہور ہے وہ قرآن کریم کی فصاحت کا قول ہے ۔ اس بات کو علامہ حلی نے نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے: ''فقال الجبائیان ان سبب اعجاز القرآن فصاحة'' یہ بات قاضی کے کلام سے بھی سمجھ میں آتی ہے، لیکن انہوں نے صراحت کے ساتھ اس بات کو کسی بھی جگہ ابوعلی کی طرف نسبت نہیں دی ہے ۔

ابوہاشم جبائی (٨٤) :  ابوہاشم Ú©ÛŒ کتابیں بھی ا Ù† Ú©Û’ والد Ú©ÛŒ طرح موجود نہیں ہیں، اور ابوہاشم Ú©Û’ نظریات سے متعلق جوبات ہم جانتے ہیں وہ دوسروں سے منقول ہے ØŒ قاضی عبدالجبار لکھتے ہیں :

و قال شیخنا ابوہاشم (٨٥) : والعادة انقضت بان انزلہ جبرئیل علیہ فصار القرآن معجزا لنزولہ و علی ھذا الوجہ و لا ختصاص الرسول بہ، لان نزول جبرئیل ھو معجز، لکنہ لو انزل مالیس بمعجز لکان لا یعلم صدق رسول اللہ ...(٨٦) ۔

اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوہاشم جبرئیل کے نازل ہونے کو معجزہ سمجھتے ہیں ، لیکن یہ معجزہ اگر معجزہ جیسے کلام کی طرح نہ ہو تو پیغمبر کی صداقت پر دلالت نہیں کرے گا، اس وجہ سے ابوہاشم ، قرآن کریم کو معجزہ سمجھتے ہیں اور اس کے اعجاز کو انہوں نے قرآن کریم کی فصاحت میں دیکھا ہے (٨٧) ابوہاشم ، قرآن کریم میں تناقض نہ ہونے کو معجزہ کی دلیل سمجھتے ہیں (٨٨) ۔

رمانی (٨٩) :  رمانی Ù†Û’ اپنے رسالہ میں لکھا ہے : اعجاز قرآن Ú©ÛŒ سات قسمیںہیں ØŒ انہی اقسام میںسے بلاغت، غیب Ú©ÛŒ خبریں اور صرفہ ہے (٩٠) اس Ú©Û’ بعد وہ اپنے پورے رسالہ Ú©Ùˆ قرآن کریم Ú©ÛŒ بلاغت سے مخصوص کرتے ہیں ØŒ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں Ù†Û’ قرآن کریم Ú©Û’ مسجع ہونے Ú©Ùˆ فواصل Ú©Û’ نام سے تعبیر کیا ہے ØŒ وہ کہتے ہیں:

'' الفواصل حروف متشاکلة فی المقاطع توجب حسن افھام المعانی والفواصل ، بلاغة والاسجاع عیب و ذلک لان الفواصل تابعة للمعانی و اما الاسجاع فالمعانی تابعة لھا (٩١) ۔

دوسرے ادیبوں نے بھی انہی کی تقلید کی ہے اورقرآن کریم کی مسجع و مقفی عبارت کو ''فواصل'' کا نام دیا ہے، جس طرح ابوبکر باقلانی، عبدالقاہر جرجانی اور ابن ابی اصبع نے فواصل کا نام دیا ہے ۔ یہ بھی صرفہ نظام کو قبول کرتے ہیں اور اس کو قرآن کریم کے اعجاز کی عقلی قسموں میں سے سمجھتے ہیں (٩٢) ۔ پس رمانی کے نزدیک بلاغت، قرآن کریم کے اعجاز پر اہم دلیل ہے ، ایسی بلاغت جس پر بعد میں اشاعرہ نے بہت زیادہ تاکید کی ہے ۔

قاضی عبدالجبار (٩٣) :  قاضی ان لوگوں میں سے ہیں جن Ú©ÛŒ کتابیں موجود ہیں ان Ú©ÛŒ اکثر کتابیں یمن میں موجود ہیں، قاضی عبدالجبار ØŒ قرآن کریم Ú©Û’ اعجاز پر صرف فصاحت Ú©Ùˆ دلیل سمجھتے ہیں ØŒ صرفہ اور غیب Ú©ÛŒ خبروں وغیرہ سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں : چونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) Ù†Û’ قرآن کریم سے مقابلہ Ú©ÛŒ دعوت دی ہے لہذا کوئی ایسی دلیل ہونا چاہئے جوپورے قرآن Ú©Ùˆ شامل ہو۔ اور یہ قسمیں قرآن کریم Ú©Û’ بعض حصہ Ú©Ùˆ شامل ہیں، البتہ یہی قسمیں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) Ú©ÛŒ صداقت Ú©ÛŒ دلیل ہیں ØŒ لیکن اعجاز قرآن Ú©ÛŒ دلیل نہیں ہیں(٩٤) Û”

زمخشری (٩٥) :  آقائے صاوی الجوینی Ú©ÛŒ دو کتابیں منھج الزمخشری فی تفسیر القرآن اور بیان اعجاز قرآن ہیں، اورانہوں ان میں اس Ú©Û’ متعلق مفصل تحقیق Ú©ÛŒ ہے ØŒ یہ فرماتے ہیں : زمخشری قرآن کریم Ú©Ùˆ دو طرح سے معجزہ سمجھتے ہیں: ایک نظم Ú©Û’ اعتبار سے اور دوسرے غیب Ú©ÛŒ خبروں Ú©Û’ اعتبار سے (٩٦)اور خود زمخشری اپنی کتاب الکشاف میں جگہ جگہ اس بات پر تاکید کرتے ہیں (٩٧) اور وہ اس بات Ú©Û’ قائل ہیں کہ قرآن کریم میں ایسا نظم ہے جواس Ú©Û’ معانی سے موثق کریقہ سے وابستہ ہے اور یہی قرآن کریم Ú©Û’ اعجاز پر دلیل ہے (٩٨) Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 next