امام مهدی (ع) کے بار ے میں گفتگو



اگر چہ تحقیق نے مستشرقین کی غفلت اور بے توجھی کی نفی کی ھے اور اس بات کو بیان کرتی ھے کہ ان لوگوں نے اپنے گذشتہ عقاید کو خرافات اور بے بنیاد افسانوں سے آلودہ پایا تو اپنے کینوں کا اضافہ کئے بغیر ممکن ھی نھیں ھے کہ اسلام کے بارے میں جو سونے سے بھی زیادہ خالص ھے کچھ کہہ سکیں اور کچھ لکھ سکیں اس بنیاد پر، جو کچھ نبی مکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے آخرالزمان میں حضرت مہدی(علیہ السلام) کے ظھور کے بارے تواتر کے ساتھ نقل ھوا ھے۔ اسے خرافات سے متھم کیا۔

دوسرے، جھاں سماج ساز اور انتظار کے انکار ناپزیر آثار کا مشاہدہ کیا تو مکروحیلہ کے ذریعہ ”عقیدہٴ مہدی“ کو خرافات سے متھم کیا تاکہ اس آرمان ساز قوت بخش اور مجاہد پرور فکر ”کو خرافات“ کہہ کر اسلامی معاشرہ کو ذھنیت سے نکال دیں اور مسلمانوں کے اس اسلحے کو بے کار بنادیں۔

ان تمام چیزوں کے باوجود کہہ سکتے ھیں:کہ مصیبت یھاں نھیں ھے کیونکہ مستشرقین اللہ کی اس بات کے مصداق ھیں خدا وند سبحان فرماتا ھے: بڑی بات ھے جو ان کے منہ سے نکلتی ھے، یہ لوگ جھوٹ کے سوا کوئی بات ھی نھیں کرتے[19]

بلکہ مصیبت ان لوگوں کی باتوں میں پوشیدہ ھے جنھوں نے سید جمال الدین اسدآ بادی اور شیخ محمد عبدہ جیسے افراد کا لباس پھن لیا ھے جو عالم اسلام میں اصلاحی تحریک کے سر کردہ اور پیش قدم شمار ھوتے ھیں۔

افسوس کہ یھی امر اُن مسموم و زھر آلود تحریروں کی حقیقت پوشیدہ کرنے میں معاون اور مدد گار ثابت ھوا ھے، جو آثار اس کے سوا کوئی حقیقت نھیں رکھتے کہ دشمن کی پناہ اور اےسے لوگوں سے ہدایت طلب کریں جو خود ھی ضلالت و گمراھی کے دریا اور گھٹا ٹوپ تاریکی میں غرق ھیں؛ بغیر کسی تامل اور غور و فکر کے اسلام کی زندہ جاوید میراث کو اور اس کے بلند و عالی اصول کو کس چیلنجوں کا سامنا ھے اور حقیقت جوئی، حق طلبی اور واقعیتوں اور عالم ہستی کی ناموس کا دفاع حق سے جنگ کرنے والوں اور حقیقت سے گریز کرنے والوں کے مقابل کسی طرح کا کوئی بنیادی ضامن نھیں ھے۔

اس لحاظ سے ھم گذشتہ دونوں گروہ سے احتیاط کریں تا کہ مختلف شعبوں میں مسلمانوں کے امام مہدی پر اعتقاد سے متعلق یقینی دلیلوں کو پیش کرنے اور قطعی برھان قائم کرنے سے پھلے اس سلسلہ میں جو کچھ نشر ھوا یا پیش کیا گیا ھے اس سے شدت کے ساتھ اجتناب کریں۔

مقدمہ کے تعلیقے

”مشرق شناسی“ کی اصطلاحی داستان ایک پیچیدہ، چند جانبہ اور قابل تحقیق و جستجو ھے اس داستان نے پس پردہ عوامل کے ھمراہ بلاواسطہ اجراء کرنے والوں، اور نکی حصولیا بیوں اور ان کے عکس العمل اور مختلف اعتراضات کو مشرقیوں کے در میان ابھارا ھے۔

کچھ لوگ اس واقعہ کو بطور کامل سیاسی تصور کرتے ھیں، جب کہ دوسرا گروہ اس بات کا عقیدہ رکھتا ھے کہ ”استشراقی مطالعات“ ایک علمی اور ثقافتی چیز ھے۔ بعض لوگ، مشرقی تحقیق کے نتایج کو صددر صد مخرب اور مشرقیوں کے لئے مضر و نقصان دہ جانتے ھیں۔جب کہ بعض دےگر مشرق کے لئے ساز گار،معلم اور مثبت جانتے ھیں۔

کچھ لوگ تمام مستشرقین کو کینہ توز استعمار کا خفےہ ایجنٹ اور آلہ کار بتاتے ھیں جب کہ کچھ لوگ انھیں حقیقت کا پاک و پاکیزہ عاشق اور مشرقی علمی اور ثقافتی میراث کا شیفتہ جانتے ھیں؛ لیکن ان میں سے کوئی بھی قضاوت و اقعیت اور حقیقت سے قریب نھیں ھے اور سب کے سب ھی افراط و تفریط کا شکار ھیں۔بہترین تحلیل جو شرق شناسی کی تحریک کی ماھیت لکھنے والے نے دیکھی ھے، محققانہ تحقیق ڈاکٹر محمود رضا افتخارزادہ کی ھے۔ وہ ڈاکٹر محمد الد سوقی کی کتاب سیر تاریخی وارز یابی اندیشہ ی شرق شناسی کے مقدمہ پر ھے۔اس مفصل گفتگو کی جانب قارئین محترم کا مراجعہ کرنا ”جو کہ مشرق شناسی کی خدمت اور خیانت کے مقدمہ کے عنوان سے ھے“ بھر پور مفید اور کار آمد ھوگا(۱)

مصنف مذکورہ مقالہ میں اس تالیف اورجمع بندی کی درستگی تک پھونچتا ھے کہ شرق شناسی کی تحریک نے ھر چند شرقیوں کے لئے امید افزا، مثبت اور آموزش بخش آثار چھوڑے ھیں، لیکن مخرب اور ضرر رساں آثار اس مثبت جہتوں سے کھیں زیادہ ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next