امام مہدی(علیہ السلام) کے خاندان کی معرفت کے بارے میں گفتگو



ان احادیث سے درج ذیل نکات نکلتے ھیں ؛

۱۔ان حکمرانوں یا خلفاء کی تعداد ”بارہ“ سے تجاوز نھیں کرے گی اور سب کے سب قریش سے ھوں گے اور یہ عدد شیعوں کے عقیدہ کے مطابق ائمہ معصومین پر صادق آتی ھے جو سب کے سب قریشی ھیں۔

کبھی یہ دعویٰ کیا جاتا ھے کہ ”حکمرانوں یا خلفاء“ کا عنوان ائمہ معصومین (ع)کی واقعی حیات پر صادق نھیں آتا اس اعتراض کا جواب بالکل واضح ھے،کیونکہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی مراد خلافت و حکمرانی کے بارے استحقاق اور لیاقت کی بنیاد پر ھے۔ کبھی بھی رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی مراد خلفاء معاویہ، یزید اور مروان جیسے لوگ نھیں ھو سکتے کیوں کہ انھوں نے اسلام کی سر نوشت کے ساتھ جس طرح کاکھیل کھیلا ھے وہ خدا ھی جانتا ھے، بلکہ ”خلیفہ“ سے مراد وہ افراد ھیں جن کی حکومت و خلافت شارع مقدس کی مرھون منت ھو اور یہ کہ یہ حضرات حکومت سے کیوں محروم رھے اس کی وجہ ان پر ظالم و جابر افراد کی طرف سے ھونے والے مظالم ھیں اور اس میں کوئی منافات نھیں ھے۔ اسی وجہ سے عون المعبود فی شرح ابو داود میں اس طرح آیا ھے:

تور بشتی کہتا ھے:اس روایت سے صحیح نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ خلفاء سے مراد شائستہ اور عادل حکمراں ھیں۔ چونکہ در حقیقت یھی لوگ ”خلافت“ کے عنوان سے استحقاق رکھتے ھیں، اگرچہ یہ ضروری نھیں ھے کہ حکومت ان کے ھاتھ میں ھو لیکن عملی طور پر یہ لوگ حاکم ھیں لہٰذا امیر و خلیفہ سے مراد ایسے لوگ ھیں جنھیں بطور مجاز اس عنوان سے یاد کیا گیا ھے المرقاة میں اس طرح آتا ھے[75]

۲۔جن پر نص دلالت کرتی ھے وہ صرف یھی بارہ افراد ھیں، جس طرح نقبائے نبی اسرائیل سے تشبیہ دینے کا مقتضی بھی یھی ھے،خداوند متعال فرماتا ھے:

خداوند سبحان نے بنی اسرائیل سے عہد وپیمان لیا اور ان کے درمیان بارہ نقیب مبعوث کئے[76]

۳۔یہ تمام حدیثیں بارہ امام سے زمین کے خالی نہ ھونے کو فرض کرتی ھیں اور بیان کرتی ھیں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی جب تک دین باقی ھے زندہ رھے گا یھاں تک قیامت آجائے، مسلم اس سلسلہ میں ایک صریح حدیث اس طرح نقل کرتا ھے: اس وقت تک یہ امر قریش میں رھے گا جب تک کہ دو افراد بھی ان کے درمیان باقی رھیں گے[77]

شیعوں کے اعتقاد کے مطابق یہ حدیث بارھویں امام مہدی موعود(علیہ السلام) کے زندہ رھنے پر صادق آتی ھے؛ وہ موعود جو اپنے جد رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی بشارت کے مطابق آخر زمانہ میں ظھور کرے گا اور ظلم وجور سے بھری زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔

اھل سنت نے کبھی بارہ اسماء کی تعیین میں اتفاق رائے کا ثبوت نھیں دیا ھے بلکہ ان میں سے بعض نے بارہ کی عدد پوری کرنے کے لئے مجبوراً یزید ابن معاویہ، مروان اور عبدالملک، عمر ابن عبدالعزیز کا نام لیا ھے، یہ نتیجہ حدیث نبوی کی نص کی رو سے قطعی طور پر نادرست اور غیر منطقی ھے چونکہ ایسی تفسیر کا لازمہ عمر ابن عبدالعزیز کے بعد تمام زمانوں میں زمین کا خلیفہ برحق کے وجود سے خالی ھونا لازم آئے گا، جبکہ دین قیامت تک اسی طرح باقی رھے گا۔

اگر حدیث شریف کی تفسیر شیعہ نقطہٴ نظر سے نہ کی جائے تو، یقینا اس کے کوئی معین معنی حاصل نھیں ھوتے ھیں، چونکہ واضح ھے کہ تاریخی حوادث کی بنیاد پر، اس (بارہ نفر) عدد کے کئی گنا قریشوں نے ظاھری حکومت اور خلافت کی باگ ڈور اپنے ھاتھ میں لی ھے خواہ وہ اموی ھوں یا عباسی؛ بغیر اس کے کہ مسلمانوں کے اتفاق نظر کے مطابق کسی ایک کے نام کی تصریح کی گئی ھو، اس کے علاوہ ان سب کے سلسلے منقطع ھوگئے۔ اور ان میں کی کوئی فرد بقید حیات نھیں ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 next