حضرت مہدی(علیہ السلام) پر ایک تحقیقی جائزہ اور شبھات کا جواب



اس وقت اھل علم کے درمیان ایسے افراد پائے جاتے ھیں کہ یہ تواتر (احادیث المہدی کا تواتر) ان پر پوشیدہ ھے۔ اس بنا پران کی جھالت باعث بنی کہ انھیں راہ مستقیم سے دور کردے اور ظھور مہدی(علیہ السلام) کا انکار انھیں راہ حق و صوا ب طے کرنے سے مانع ھوتاھے۔ اس لحاظ سے یہ لوگ احادیث المہدی کے ضعف پر یقین کرتے ھیں، جبکہ ضعف روایت کی علتوں کو نھیں پہچانتے اور ”حدیث ضعیف“ کے معنی بھی نھیں جانتے ھیں اور علم حدیث کے مبادی کا صحیح تصور بھی ان کے ذھنوں میں نھیں پایا ھے اور ان کے خزانے احادیث المہدی۔ (کہ متواتر ھونے کی وجہ سے دفاع، تعریف اور تبیین سے بے نیاز ھیں) سے خالی ھے اور صرف ان کا مدرک اوردلیل، ان کے سست دلائل اور ابن خلدون کے بے بنیاد اور بے جا دلائل ھیں جو بعض احادیث کو ضعیف شمار کرنے اور جرح کرنے اور خود ساختہ عیوب نکالنے میں اعمال کیا ھے کہ جو اس نے موثق اور ان احادیث کے مورد اعتماد راویوں کے بارے میں ظاھرکیا ھے۔

جبکہ ابن خلدون حدیث شناسی کی عظیم دانشگاہ میں کوئی حیثیت اور مقام نھیں رکھتااور اس چشمہ جاری سے ایک گھونٹ بھی سیراب نھیں ھوا ھے۔ پھر کس طرح اس میدان میں اس پر اعتماد کیا جاسکتا ھے اور نقدو تحقیق اور ان کے مسائل کی نقد وبررسی میں اس کی طرف کیسے رجوع کیا جا سکتا ھے ؟ حق یہ ھے کہ گھر کے دروازے سے گھر میں داخل ھوناچاھیئے اور انصاف تو یہ ھے کہ ھر فن میں اس کے ماھرین اور تجربہ کاروں کی طرف رجوع کرنا چاھیئے۔ اس بنا پر، مورد نظر بحث سے متعلق احادیث کے بارے میں کوئی تصحیح یا تضعیف قابل قبول نھیںھے، مگر یہ کہ حدیث پر نقد و تنقید کرنے والے، حفاظ اور اپنے فن میں بے مثال ھوں۔ پھر اس وقت مذکورہ بالا احادیث کی صحت پر چند حفاظ اور ناقدین حدیث کے اقوال کو نقل کرتے ھیں[29]

اسی طرح شیخ احمد شاکر کہتا ھے:ابن خلدون کو جو معلوم نھیں تھا اسی کی اس نے پیروی کی ھے (سورہ مبارک اسراء کی ۳۶/ویں آیت کی طرف اشارہ کیا ھے) اور اپنی کتاب کے مقدمے میں اس غرض سے جو فصل اس نے قائم کی عجیب وغریب تناقض (بیان میں تضاد کبھی کچھ اور کبھی کچھ) کا شکار ھوگیا اور فاش غلطیاں کر بیٹھا ھے ابن خلدون نے محدثین کی باتیں خوب نھیں سمجھی ھیں؛اور اگر ان کے مقصود اور مراد سے آگاہ ھوتا تو کبھی ایسی بات جس کا اس نے ادعا کیا ھے زبان پر نھیں لاتا[30]

شیخ عباد لکھتے ھیں:ابن خلدون ایک مورخ ھے نہ کہ رجال حدیث، لہذا تصحیح و تضعیف کے سلسلہ میں اس کی رای پر اعتماد نھیں کیا جاسکتا،بلکہ قضاوت اور فیصلہ کا مرکز بیہقی، عقیلی، خطابی، ذھبی، ابن تیمیہ، ابن قیم اور دیگر بزرگان حدیث اور درایت کے ماھرین جیسے افراد کی باتیں ھیں، حدیث سے باخبر اور آشنا ماھر لوگ سبھی حدیث کو صحیح جانتے ھیں[31]

 Ø¨Ú¾Ø± صورت جو بھی Ú¾Ùˆ ابن خلدون Ú©ÛŒ تضعیف سے استدلال کرنے والوں کا استدلال ناکامیوں اور شکست سے دوچار Ú¾Û’ØŒ اس Ú©Û’ علاوہ خود ابن خلدون Ù†Û’ بھی جو روایات نقل Ú©ÛŒ ھیں ان میں سے چار روایت Ú©ÛŒ صحت Ú©ÛŒ تصریح Ú©ÛŒ Ú¾Û’ اور Ú¾Ù… مزید اطلاع Ú©Û’ لئے ان روایات Ú©Ùˆ نقل کررھے ھیں:[32]

۱۔ وہ حدیث جسے حاکم نے عون اعرابی سے اور اس نے ابوصدیق ناجی اوراس نے ابوسعید خدری کے طریق سے نقل کیا ھے ابن خلدون ان احادیث کے مقابل خاموش رھاھے۔ اور ان پر کوئی اعتراض نھیں کیا ھے۔ چو نکہ اس کے سارے راوی اھل سنت کے نزدیک مورد وثوق اور قابل اعتماد ھیں۔ اگرچہ ابن خلدون نے اس کی تصریح نھیں کی ھے، لیکن اس کے مقابلے اس کی خاموشی اس بات کی دلیل ھے کہ وہ بے اعتراض اور صحیح ھیں۔

۲۔ جو روایت حاکم نے سلیمان ابن عبید کے طریق سے اور اس نے ابو صدیق ناجی سے اور اس نے ابوسعید خدری سے نقل کیاھے، اور ابن خلدون اس کے بارے میں کہتا ھے:

اس کی اسناد صحیح ھیں۔

۳۔وہ حدیث جسے حاکم نے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(علیھما السلام) سے روایت کی ھے اور شیخین کی مورد نظر شرائط کے مطابق اسے صحیح جانا ھے اور ابن خلدون بھی لکھتا ھے:جیسا کہ ذکر ھوا ھے یہ حدیث صحیح السند ھے یعنی سند کے لحاظ سے صحیح ھے۔

۴۔ وہ خبر جسے ابوداود سجستانی نے اپنی سنن میں صالح ابن خلیل سے اور اس نے ام سلمہ سے نقل کیا ھے اور ابن خلدون اس کے بارے میں اس طرح لکھتا ھے: اس کے رجال صحیح ھیں یعنی مورد وثوق و قابل اطمینان ھیں کہ ان کے درمیان کوئی ناقابل اعتماد اور مجھول شخص نھیں پایا جاتا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 next