عالمی مصلح عقل و دانش کے میزان میں



۲۔ عوامی بنیادیں اسلام کی ابتدا ھی سے رکھی گئیں یھاں تک کہ امام باقر اور امام صادق (ع)کے زمانے میں جلوہ گر اور وسیع ھوئیں اور جس مکتب کی ان دومعصوم اماموں نے داغ بیل ڈالی اس سے عالم اسلام میں وسیع پیمانہ پر فکری، ھیجان برپا ھو گیا جس نے سیکڑوں فقےہ، متکلم، مفسر اور تمام انسانی علوم کے دانشوروں کو اپنے اندر پروان چڑھایا۔ حسن بن علی وشا کہتے ھیں:

میں نے اس مسجد (مسجد الکوفہ) میں ۹/سو اکابر اور اسا تےذ پائے کہ سب ھی کہہ ر ھے تھے: جعفر بن محمد(علیہ السلام) نے ھمارے لئے روایت کی ھے[3]

۳۔ وہ شرائط اور ضوابط جو اس مکتب اور اس کے عوامی نمائندوں کی طرف سے ”امام“ کی تعیین اور انکی لیاقت اور صلاحیت جاننے کے لئے معین کئے گئے ھیں، کافی سخت اور دقیق ھیں؛ کیونکہ اس بنیاد پر، امام کو اپنے زمانے کی سب سے پڑھی لکھی اور معصوم شخصیت ھونا چاہئے۔

۴۔ اس مکتب اور اس کی عوامی حمایت نے اپنے عقیدہ کی پختگی اور مقاومت کی راہ میں باب امامت میں بڑی بڑی قربانیاں دی ھیں۔ کیونکہ یہ مکتب حکومت وقت کی نظر میں ایک تھیوری اور اعتراض و قیام کی تحریک تصور کیا گیا۔ یھی وہ عامل تھا جس نے حکام وقت کو اس بات پر پر مجبور کردیا کہ اس مکتب کے رھبروں اور طرفداروں کے خلاف وسیع پیمانہ پر آزار، اذیت اور کشت و کشتار کا بازار گرم کریں جس کا نتیجہ یہ ھوا کہ بہت سے لوگوں کو مار ڈالا اور کچھ لوگوں کو قید اور سیکڑوں شیعہ مجاہدین کو اندھیری کوٹھری میں شھید کر ڈالا۔ پس، اس مکتب کے ماننے والوں نے امامت سے متعلق اپنے عقیدہ کا تحفظ کرنے کی گراں قیمت ادا کی ھے اور اس سلسلہ میں اللہ کی رضایت اور اس کے تقرب کے سوا کوئی اور سبب اور انگیزہ نھیں تھا۔

۵۔ ائمہ معصومین (ع)جن کی رھبری اور پیشوائی پر یہ عوامی طاقتیں ایمان لائیں، کبھی عوامی مرکز سے خود کو الگ نھیں کیا اور عالی شان قصروں میں لوگوں سے دور (بادشاھوں کی طرح) زندگی نھیں گذاری اور اپنے تک امت کی رسائی کے لئے کوئی مانع اور رکاوٹ ایجاد نھیں کی مگر یہ کہ حکومت وقت کے مجبور کرنے سے جلا وطن یا زندان میں رھے ھوں جس کا نتیجہ یہ ھوا کہ امت سے جدا ھو کر زندگی گذری۔

ان بے شمار راویوں سے جنھوں نے ائمہ معصومین(علیہ السلام) سے احادیث نقل کی ھیں نیز بہت بڑی جماعت جو فریضہ حج کی ادائیگی کے موقع پر مدینہ میں اپنے اماموں کے دیدار کے لئے دوڑ پڑتی تھی امام مہدی(علیہ السلام) اور شیعوں کے درمیان ھونے والی جو خط و کتابت نقل ھوئی ھے اس سے اس حقیقت کو درک کیا جاسکتا ھے۔ اور اسی طرح حضرت حجت(علیہ السلام) کے عالم اسلام کے مختلف اطراف و جوانب میں کئے گئے متعدد سفر سے اس انس اور قطعی تعلق کے اسباب کو درک کیا جاسکتا ھے کہ امام مہدی اور علماء شیعہ اور ان کے تمام طبقات کے درمیان ارتباط برقرار ھے۔

۶۔ حکومت وقت حضرات ائمہ ہدی (ع)اوران کی سماجی قیادت، ولادت اور روحانی نفوذ کو اپنی بقا اور حیات کے لئے بہت بڑا خطرہ اور دھمکی جانتی تھی اس بنا پر، اپنی تمام تر توانائیاں اس بات پر صرف کیں تا کہ اس زعامت و رھبری اور اس اجتماعی مذھبی قدرت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور اس بات کے لئے غیر اسلامی اقدامات جو سراسر انسانیت کے خلاف اور مضحکہ خیز ھیںبروئے کار لاتے ھوئے درند گی ا ور سنگدلی سے دریغ نھیں کیا اور قدرت و طاقت کے نشہ میںمسلمانوں بالخصوص شیعوں کے درمیان اپنی تنفر آمیز اور خشم آور روش کے ذریعہ زور زبردستی، اےذا رسانی، خوفزدہ اور جلا وطن کرنے، قید و بند، شکنجہ عترت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی ہتک حرمت اور ائمہ معصومین کا قتل کرنا جاری رکھا۔

اس لحاظ سے، مذکورہ بالا ششگانہ نکات پر نظر رکھتے ھوئے جو تاریخ کے مسلم الثبوت حقائق ھیں، اس طرح نتیجہ نکال سکتے ھیں کہ ”بچپنے کی امامت“ ایک واقعی محسوس اور مجرب چیز تھی نہ کہ بے بنیاد توھم یا حقیقت سے دور کوئی بات ھو۔ اس لئے جو بھی امام میدان میں آتا ھے اور بچپنے کے باوجود اپنی روحانی امامت اور فکری قیادت کا مسلمانوں پر اعلان کرتا ھے اور امت بھی ان کی ولایت و امامت پر ایمان لا تے ھوئے سرتسلیم خم کرتی ھے۔ اس کی قیادت علم کے عظیم مرتبہ پر فائز ھوئے اور فکری افق کی وسعت اور فقہ، تفسیر اور کلام پر بھر پور عبور رکھے بغیر کبھی قابل قبول نھیں ھوسکتی۔ چونکہ اگر ایسی شخصیت کے مالک نہ ھوں تو محال ھے کہ عوامی طاقتوں کے جم غفیر کے درمیان جن میں علوم وفنون کے ماھرین بھی زیادہ سے زیادہ ھیں، ایسی مرکز یت کے مالک ھو ں اوراےسی عظمت اور علمی و فکری قوت کے بغیر لوگ صرف ایک ادعاء پر اکتفا کرکے قانع نھیں ھوں گے۔

جب کہ ائمہ حضرات ایسے حالات اور شرائط میں زندگی گذار رھے تھے کہ کسی کے لئے بھی ان کی معاشرت اور ان تک رسائی دشوار زندگی نہ تھی اور ان کی ابھام و پیچیدگی سے دور کارنامہ کچھ اس طرح سے تھا کہ تیز اور تلاش کرنے والی نگاھوں سے دور نھیں تھا۔ اور اس کے تمام زاویوں پر نظارت رکھتے تھے، آیا فطرت سلیم اور انصاف و مزاج قبول کرتا ھے کہ ایک بچہ امامت کا دعوی کرے اور خود کو عظیم امت مسلمہ کے رھبر اور پیشوا کے عنوان سے پیش کرے، پھر لوگ اس وقت ان سے وابستہ ھوں اور اپنی جان و مال کی اس راہ میں، سنگین قیمت ادا کریں۔ اس کے بغیر کہ خود کوتحقیق و جستجو کی زحمت میں ڈالیں اور حقیقت تک پھونچنے میں کامیاب ھوں اور بغیر اس کے کہ بچپنے کی امامت ان کے اعصاب کو ھلاکر رکھ دے اور کمسن رھبر کے پرکھنے اور سنجش کرنے پر انھیں تحریک نہ کرے؟

اگر فرض کریں کہ اطلاع اور تحقیق حال کے لئے لوگوں نے کوئی کوشش نھیں کی تو کیا ممکن ھے کہ اس واقعہ کو رونما ھوئے اتنا عرصہ گذر گیا ھو اور اس کمسن رھبر سے دو لوگوں کارابطہ اتنا نزدیکی اور شدید ھو کہ لوگ اپنے فرائض معلوم کرتے ھوںاور مشکلات کے وقت ان کی طرف رجوع کرتے ھوں اور جواب حاصل کرتے ھوں اس کے بعد بھی حقیقت کسی پر روشن نہ ھو؟ آیا یہ معقول بات ھے کہ ھم یہ قبول کرلیں کہ وہ واقعاً فکری، روحی اور علمی لحاظ سے ایک بچے سے زیادہ نھیں تھے اس کے باوجود ایک زمانہ گذرنے کے بعد بھی سورج کی مانند واقعیت روشن نہ ھو؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next