عقیدہ مہدویت کے اجزا و عناصر سے متعلق بحث



 Ø¹ÙŽÙ†Ù الصَّادِقِ فِی قَوْلِہ تَعَالٰی (اَلَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ) قَالَ:”مَنْ آمَنَ بِقِیَامِ الْقَائِمِ Ø› اِنَّہ حَقٌّ“؛اَقُوْلُ ھٰذَا الْمَعْنٰی مَرْوِیٌّ فِی غَیْرِ ھٰذِہ الرَّوَایَةِ[6]

امام صادق(علیہ السلام) سے خداوند متعال کے قول (اَلَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ) کے بارے میں روایت ھے کہ آپ نے فرمایا: جو حضرت قائم(علیہ السلام) کے قیام پر ایمان لائے وہ حق پر ھے میں کہتاھوں کہ یھی معنی اس روایت کے علاوہ دوسری روایت میں بھی منقول ھے۔

امام﷼ نے (اَلَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ) کے بارے میں فرمایا: جو لوگ حضرت مہدی(علیہ السلام) کے قیام پر یقین رکھتے اور اسے حق شمار کرتے ھیں۔

یھاں تک کی بحث میں یہ مطلب واضح ھوگیا ھے کہ ”مہدویت“ پر ایمان رکھنا ضروری ھے۔

اب ھمیں مہدی موعود پر ایمان کے لئے اس کی ماقبل ضرورتوں اور اس کے عناصر واجزا کی تلاش مقصود ھے۔ بالفاظ دیگر کس شخص کو ”مہدی کا حقیقی معتقد جاننا چاھیئے؟ اس سلسلہ میں اساسی و بنیادی سوال یہ ھے کہ آیا حضرت کے نام و نسب کا مکمل طور پر جاننا اور ان کے کردار کی شناخت، مقام ومنزلت، سیرت، رسالت نیز تمام وہ معلومات جو حضرت کے قیام سے مربوط ھیں، مہدی(علیہ السلام) پر ایمان رکھنے والوں کے زمرہ اور گروہ میں شامل ھونے کے لئے کافی ھے؟

آیا جو شخص اس شناخت و معرفت کو حاصل کرنے کے لئے اپنی پیھم کوششوں کو توفیقات سے متصل کردیتا ھے اس کو حضرت ”مہدی کا معتقد“ جاننا چاہئے۔

اس سوال کے جواب کے لئے ایمان کی حقیقت و ماھیت اور اس کو تشکیل دینے والے مجموعہ کی تحقیق ضروری ھے؛ کیونکہ ”عقیدہ مہدویت“ بھی قضیہ کلی”یقینیت“ کے صغریٰ و مصادیق میں سے ایک ھے ”اور یہ بہت واضح ھے کہ جو چیز مطلق ایمان کے عنوان سے متعارف ھو گی وہ ناگزیر حضرت ولی عصر(علیہ السلام) پر ایمان رکھنے کے واجب التحصیل مقدمات بھی کشف کرے گی۔ لیکن اس مختصر کتاب میں اس مطلب کی توضیح اور تفصیل کی گنجائش نھیں ھے لہذا اس باب میں اختصار ملحوظ نظر ھے:

ایمان کی تعریف

ھر حقیقت، آدمی کی شخصیت کے لحاظ سے دو حیثیت سے رابطہ بر قرار رکھ سکتی ھے: ادراکی اور عاطفی؛ اگر کوئی موجود (اپنے ھی وجود کی سخنیت کے ساتھ) انسان کی عقل اور اس کے ذھن میں آجائے تو اس صورت میںانسان نے اس حقیقت کے ساتھ ”عقد العقل“ کی حیثیت سے رابطہ بر قرار کیا ھے اور اگر یھی امر اس کے عاطفی مرکز میں نفود کرجائے اور مثبت اثر چھوڑے اور نرم وملائم احساسات کو برانگیختہ کرے، نہ نفرت آمیز تو اس نے ”عقد القلب“ کی حیثیت سے رابطہ بر قرار کیا ھے۔

عقد العقل کے متحقق ھونے اور ادراکی عکس العمل کے وجود میں آنے سے ”بصیرت“ نامی عنصر، انسان کو حاصل ھوتا ھے اور عقد القلب کے مجسم ھونے اور مثبت عاطفی پھلو کے عکس العمل سے، انسان کے اندر ایک رجحان اور میلان پیدا ھوتا ھے ایسے دو عکس العمل کا نتیجہ لازمی طور پر ایک دوسرے سے ربط او رملازمہ نھیں رکھتاکیونکہ بہت سے (نظریات) فقط ادراک کی ھی سطح تک باقی رہتے ھیں اور عاطفی سطحوں تک نفود نھیں کر پاتے اور اس کے مقابل بہت سارے احساسات اور جذبات بھی معرفت کی بنیاد پر استوار نھیں ھوپاتے۔

اس طرح ”ایمان“ نہ اس نظریہ کو کہتے ھیں اور نہ ھی اس میلان کو،نہ ھی ایمان، عقد العقل مجرد ھے اور نہ ھی عقد القلب محض۔ ایمان ایک ایسے بنیادی تمایل اور بلند وبالا رجحان کو کہتے ھیں جو ایک نظر یہ کی بنیاد پر استوار ھے۔ آدمی کے اندر ایمان اس وقت مجسم ھوتا ھے جب اس کے ذھن میں معرفت کا لگا ھوا پودا اپنے ریشوں کو اس کے دل کے اندر پیوست و مستحکم کرلے۔ ایمان ھوا کے رخ پر ایک ایسی کشتی ھے جس کے قطب نما کی سوئی (جو تمایل کی کیفیت و میزان کو بتاتی ھے) ایک ھیجان آور معرفت کے محور پر منظم واستوار ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next