مہدی کے معتقدین کے فرائض سے متعلق بحث



حضرت سید الساجدین علی ابن الحسین(علیھما السلام) نے فرمایا:

 â€ØªÙŽÙ…ْتَدُّ الْغَیْبَةُ بِوَلِیِّ اللّٰہِ الثَّانِی عَشَرَ مِنْ اَوْصِیَاءِ رَسُولِ اللّٰہِ  (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Û”Û”Û” اِنَّ اَھْلَ زَمَانِ غَیْبَتِہ اَلْقَائِلُونَ بِاِمَامَتِہ اَلْمُنْتَظِرُوْنَ لِظُھُوْرِہ، اَفْضَلُ اَہْلِ کُلِّ زَمَانٍ؛ لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ ذِکْرُہ اَعْطَاھُمْ مِنَ الْعُقَولِ وَالْاِفْھَامِ وَالْمَعْرِفَةِ مَاصَارَتْ بِہ الْغَیْبَةُ عِنْدَھُمْ بِمَنْزِلَةِ الْمُشَاھَدَةِ وَجَعَلَھُمْ فِی ذٰلِکَ الزَّمَانِ بِمَنْزِلَةِ الْمُجَاھِدِیْنَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)بِالسَّیْفِ، اُولٰئِکَ الْمُخْلِصُوْنَ حَقّاً وَشِیْعَتُنَا صِدْقاً وَالدُّعَاةُ اِلیٰ دِیْنِ اللّٰہِ سِرّاً وَجَھْراً“[4]

”رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد بارھویں وصی کی غیبت طولانی ھوگی۔ اور اس زمانہ کے لوگ جو ان کی امامت کے قائل اور ان کے ظھور کا عقیدہ رکھتے ھوں گے تمام زمانے کے لوگوں میں سب سے بہتر لوگ ھوں گے۔کیونکہ خدا وند سبحان انھیں عقل وفھم اور معرفت عطا کرے گا جس کی وجہ سے غیبت ان کے نزدیک حضور کے مانند ھوگی (یعنی حضور وغیبت میں ان کے نزدیک کوئی فرق نھیں ھوگا) اور ایسے مجاہدین اور مبارزہ طلب لوگوں میں ان کا شمار ھوگا کہ جنھوں نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ھمرکاب ھو کرتلوار سے جنگ کی ھو۔ وہ لوگ واقعی مخلص اور سچے شیعہ اور آشکار وپوشیدہ دونوں طریقہ سے دین الھی کی طرف دعوت دینے والے ھوں گے۔

حضرت امام کاظم(علیہ السلام) نے فرمایا:

 â€Ø·ÙÙˆÙ’بَیٰ لِشِیْعِتِنَا الْمُتَمَسِّکِیْنَ بِحَبْلِنَا فِی غَیْبَةِ قَائِمِنَا، الثَّابِتِیْنَ عَلٰی مُوَالَاتِنَا وَالْبَرَائَةِ مِنْ اَعْدَائِنَا، اُولٰئِکَ مِنَّا وَنَحْنُ مِنْھُمْ، قَدْ رَضُوْا بِنَا اَئِمَّةً وَرَضِیْنَا بِھِمْ شِیْعَةً، فَطُوْبَیٰ لَھُمْ ثُمَّ طُوْبَیٰ لَھُمْ، ھُمْ وَاللّٰہِ مَعَنَا فِی دَرَجَتِنَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ“[5]

”ھمارے شیعوں کو مبارک ھو جو ھمارے قائم کی غیبت کے زمانے میں ھم سے متمسک ھوں گے نیز ھماری دوستی اور ھمارے دشمنوں سے دشمنی کرنے پر ثابت قدم رھیں گے۔ یہ لوگ ھم سے ھیں اور ھم ان سے ھیں۔ وہ لوگ ھماری امامت سے راضی وخوشنود ھیں تو ھم ان کی اس بات سے خوش ھیں کہ وہ ھماری پیروی کرتے ھیں۔ وہ لوگ ھماری امامت پر راضی ھیں اور ھم اس بات سے راضی ھیں کہ وہ ھمارے شیعہ ھیں مبارک ھو مبارک ھو، خدا کی قسم وہ لوگ قیامت کے دن ھمارے ھم مرتبہ اور ھمارے ساتھ ھوں گے۔

یقینا ”انتظار کرنے والوں“ کا راز کس چیز میں پوشیدہ ھے؟ کہ ان کا اس طرح کی عظیم منزلت اور بے مثال مقام کا حامل ھونا اللہ کے مقرب فرشتوں کے لئے رشک کا باعث ھے جو کچھ بھی ھے اس کی حقیقت انتظار کی طرف لوٹتی ھے آخر انتظار کی حقیقت کیا ھے کہ اس درجہ عروج بخش اور کمال آور ھے؟ یہ کون سی ایسی راہ ھے جس کی بلندی سے انسان کی پرواز سدرةالمنتھیٰ پر تمام ھوتی ھے؟

یہ شاید اس لئے ھے کہ ”انتظار“ کا صحیح مفھوم ابھی تک درک نھیں ھوسکا ھے لہذا اس بات کی گنجائش ھے کہ دوبارہ اس سوال کو مزید وضاحت کے ساتھ ذکر کیا جائے کہ حقیقت میں انتظار کے معنی کیاھیں؟ اس کے جواب میں کھنا چاھیئے کہ: کتاب و سنت سے ماخوذ وحی کے بلند ترین مجموعی معارف سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ ”انتظار“ ایک ایسی عمیق حقیقت ھے کہ ایک کلمہ یا دو جملہ سے اس کی تہہ تک نھیں پھونچا جاسکتا ”انتظار“ نقطہ پرکار اور ایسا منشور ھے جس کے زاویے مختلف ھیں جس کے ایک یا دوجملے سے اس کے تمام ابعاد کو آئینہ کلام میں منعکس نھیں کیا جاسکتا۔ لیکن ”اگر دریا کے تمام پانی کو کھینچا نھیں جاسکتا تو پیاس بجھانے کی حدتک اس سے کچھ تو لیا ھی جاسکتا ھے۔“

 

لفظ ”انتظار“ کی تعریف

شاید چند سطروں میں انتظار کے معنی اس طرح کئے جاسکتے ھیں:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next