خداوند عالم کے حقوق اور اس کی نعمتوں کی عظمت و وسعت اور فرائض کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت



لیکن یہ اعتقاد اس وقت حاصل ہوتاہے جب انسان خدا کی طرف سے رزق کے مقدر ہونے کے سلسلہ میں اطمینان پیدا کرلے ۔

 

یہ جو کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کے رزق کو مقدر بنایا ہے اس معنی میں نہیں ہے کہ انسان رزق حاصل کرنے کیلئے تلاش و کوشش سے ہاتھ کھینچ لے اور کہے : اللہ تعالی میرے رزق کو خود مجھ تک پہنچا دے گا اس موضوع پر اپنی جگہ پر بحث ہوئی ہے کہ انسان کو اپنی ضروریات پورا کرنے کیلئے جستجو اور تلاش کرنی چاہیئے اور اللہ تعالی کا ہل اور آرام طلب انسان سے بیزار ہے ۔

 

رزق کے مقدر ہونے کی بحث ان لوگوں کیلئے ہے جو شیطانی وسوسوں سے دھوکہ کھاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر الٰہی فرائض انجام دینے میں لگ گئے تو وہ اور ان کے اہل و عیال بھوک سے مرجائیں گے، جو انساں خد اکی بندگی کرے گا بعید ہے اللہ تعالی اسے بھوکا چھوڑدے گا ۔

 

توحید افعالی اور اللہ تعالی کا سرچشمہ خیر ہونا :

 

” وَ مَنْ اُعطِیَ خیراً اٴَعطَاہُ و مَنْ وَقٰی شراً فالله وقاہ “

 

جس شخص کو کوئی خیر پہنچے خدا نے اسے عطاکیا ہے اور جو شخص کسی شر سے محفوظ رہا ہے تو خدا نے اس کی حفاظت کی ہے “

 

ایک اور مطلب جسے بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم الٰہی فرائض کو انجام دینے اور گناہوں سے بچ کر عبادات انجام دیتے ہیں تو ہمیں یہ تصور نہیں کرناچاہیئے کہ ہم شائستہ انسان بن گئے ہر وہ نیک کام جو ہم سے انجام پاتا ہے بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یہ وہی ہے جس نے نیک کام انجام دینے اور گناہ سے اجتناب کی توفیق بخشی ہے جو کچھ ہمیں تکوینی طور پر دنیا کی نیکیوں سے تلاش یا تلاش کے بغیر ملتا ہے وہ خدا کی طرف سے ہے اور یہ خداوند عالم ہی ہے جو بلاؤں کو ہم سے دور کرتا ہے اس اعتقاد کایقین اور اس فکر کا سرچشمہ توحید افعالی میں جلوہ گر ہوتا ہے کہ انسان کو تمام خوبیوں اور نیک اعمال کو اللہ تعالی کی طرف سے جاننا چاہیئے اور اسے بلاؤں اور برائیوں کو دور کرنے والا جانناچاہیئے ۔

 

توحید افعالی کی بحث انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو بھی مطالب ” قضا وقدر “ وغیرہ کے بارے میں کہے گئے وہ بذات خود ” توحید افعالی “ کے بارے میں انسان کے اعتقاد کا ایک مقدمہ ہے ۔

 

” توحید افعالی “ پر توجہ کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ انسان کے اندر سے غرور و تکبر دور ہوتا ہے اور حقیقت میں ” توحیدا فعالی “ پر توجہ کرنا، سستی ،کاہلی ، حسادت اور حقارت جیسی اکثر اخلاقی برائیوں کا علاج ہے ” توحید افعالی “ پر توجہ کرنے سے انسان میں نہ حسد کیلئے کوئی مقام ، اور نہ تکبر وحقارت کیلئے کوئی گنجائش باقی رہتی ہے جب انسان خود کو خداوند عالم سے مربوط دیکھتا ہے تو پھر وہ احساس حقارت نہیں کرتا ہے ۔ اس طرح جو خد کی عظمت پر نظر رکھتا ہے تو پھر اپنی بزرگی کا ہر گزسودا نہیںکرتا ہے ، کیونکہ وہ ہر چیز کواللہ تعالی کی طرف سے جانتا ہے اس طرح اگر کسی کا یہ ایمان ہو کہ تمام طاقتیں خدا کی طرف سے ہیں اور کوئی اس کی اجازت کے بغیر کسی کام کو انجام نہیں دے سکتا ہے تو وہ خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ہے جب انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ خداوند عالم تمام نیکیوں کا سرچشمہ ہے اور اس کی اجازت کے بغیر کسی کو کوئی نیکی نہیں پہنچ سکتی ہے تو وہ خدا کے سوا کسی اور سے دلچسپی نہیں رکھتا ہے بلکہ صرف اللہ تعالی سے امید وار ہوتاہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13