قول و فعل میں یکسانیت اورزبان پر کنٹرول



محرومیوں اور مصیبتوں کا گناہ کے ساتھ ارتباط کے پیش نظر جب کبھی بعض بزرگوں کو کسی مصیبت کا سامنا ہوتا تھا تووہ غورو فکر کرتے تھے کہ کونسی خطا کے مرتکب ہوئے ہیں جو اس مصیبت کا سبب بنی ہے ،نقل کیا گیا ہے کہ ایک دن ایک معلم اخلاق ،تہران میں ایک سڑک کو عبور کررہے تھے ایک حیوان نے انھیں لات ماری ، وہ اسی جگہ پر بیٹھ گئے اور فکر کرنے لگے کہ میں نے کیا کیا ہے جس کی وجہ سے اس حیوان کی طرف سے اذیت و آزار کا سزاوار ہوا !

 

زبان پر کنٹرول اور بیہودہ کاموں سے اجتناب

 

” یَا اٴَبَاذَرٍ ! دَعْ مَالَسْتَ مِنْہُ فِیْ شیٴٍ وَلَا تَنْطِقْ فِیْمَا لَا یَعْنِیْکَ وَ اخْزَنْ لِسَانَکَ کَمَا تَخْزَنُ وَ رِقَکَ “ ۱#

 

اے ابو ذر ! جس کام میںتمھارافائد نہ ہو اسے چھوڑ دو اور جس کلام میں تمھاراکوئی فائدہ نہ ہو اس کیلئے لب کشائی نہ کرو اور اپنی زبان کو زر و جواہر کے مانند کہ جس کی حفاظت کی تم کوشش کرتے ہو محفوظ رکھو ۔

 

حدیث کے اس حصہ میں جو مطلب بیان ہوا ہے وہ انسان کو گناہ سے دور رکھنے کیلئے گزشتہ بیانات کا تکملہ ہے جو اپنے آپ کوگناہوں سے بچانا چاہتا ہے اسے اپنے لئے ایک حد مقرر کرنی ہوگی چنانچہ کہا گیا ہے : ” وَ من حام حول الحمی اوشک ان یقی فیہ “ جو کسی چٹان کی چوٹی پر چل رہا ہو اسے ڈرنا چاہیے کہ کہیں نیچے نہ گرجائے ، جو گناہ سے بچنا چاہے اسے اس کے مقدمات سے دوری اختیار کرنی چاہیے اور بعض مباح کاموں کو ترک کرنا چاہیے تاکہ گناہ میں گرفتار نہ ہوجائے ۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next