قول و فعل میں یکسانیت اورزبان پر کنٹرول



وہ فرماتے تھے : یہ جو اللہ تعالی بعض لوگوں کو ” صدیق “ --- جو صیغہٴ مبالغہ ---کہتا ہے اس لحاظ سے ہے کہ صدیقین کی رفتار ، ان کی گفتار کی تصدیق کرنے والی ہے جس کی گفتار اس کے اعتقاد کے ساتھ ہم آہنگ ہو وہ بھی صادق ہے لیکن صدیق کا مقام بلند تر ہے کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نہ صرف اس کا قول اس کے اعتقاد کے مطابق ہے بلکہ اس کے عمل کے موافق بھی ہے وہ بھی تمام مواقع پر ۔

 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم فرماتے ہیں: جس کا قول اس کے فعل کے ساتھ ہم آہنگ ہو ، وہ سعادت حاصل کرتا ہے اس قسم کا انسان اگر کوشش کرے کہ اس کا قول و فعل اور اعتقاد ہمیشہ ہم آہنگ ہوں تو وہ صدیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے اس کے بر عکس جو انسان اپنے قول پر عمل نہیں کرتا ہے وہ منافق اور جھوٹا ہے جیساکہ قرآن مجیدمنافقین کے بارے میں کہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی زبانی گواہی دیتے اور دل میں اس کا اعتقاد نہیں رکھتے ہیں کو کاذب اور جھوٹاقرار دیتا ہے فرماتا ہے:

 

< اِذَا جَائَکَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُولُ اللهِ وَ اللهُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُولُہُ وَاللهُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَکَاذِبُونَ >( منافقون / ۱)

 

پیغمبر ! یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں توکہتے ہیں: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ الله کے رسول ہیں اور الله بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں ․ لیکن الله گواہی دیتا ہے یہ منافقین اپنے دعوی میں جھوٹے ہیں “

 

منافقین کی باتوں کے جھوٹ ہونے کی دلیل یہ ہے :

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next