قول و فعل میں یکسانیت اورزبان پر کنٹرول



< اٴَتَامُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَونَ اَنْفُسَکُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ اَفَلَا تَعقِلُونَ>(بقرہ /۴۴)

 

کیا تم ، لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کوبھولے ہوئے ہو جب کہ کتاب خدا کی تلاوت بھی کرتے ہو ، کیا تمہارے پاس عقل نہیں ہے ؟

 

( ” بھول جانا “ یاد نہ آنے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس معنی میں ہے کہ اپنے قول پر عمل نہیں کرتے ہیں کیونکہ ممکن ہے اپنی بات انسان کو یاد ہو لیکن اس پر عمل نہ کرے )

 

جب انسان ہمدردی کے ساتھ دوسروں کو نصیحت کرتا ہے کہ یہ کام انجام دو اور وہ کام انجام نہ دے تو خود کو کیسے بھول جاتا ہے ! کیا وہ اپنی نسبت دوسروں کیلئے زیادہ ہمدرد ہے ؟ کیا وہ اپنی نسبت دوسروں کو زیادہ دوست رکھتا ہے ؟ ایسی چیز نا قابل یقین ہے ۔

 

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next