حضرت علی(ع) کے فضائل و کمالات



< إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاللهِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا وَجَاہَدُوا بِاٴَمْوَالِہِمْ وَاٴَنفُسِہِمْ فِی سَبِیلِ اللهِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ الصَّادِقُونَ >[29]”سچے مومن تو بس وھی ھیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، پھر انھوں نے اس میں سے کسی طرح کا شک وشبہ نہ کیا اور اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جہاد کیا یھی لوگ ( دعوائے ایمان میں ) سچے ھیں“

بعثت کے ابتدائی ایام میں مسلمانوں نے بہت زیادہ شکنجے اور ظلم و بربریت کواپنی کامیابی کی راہ میں برداشت کیا تھا جس چیز نے دشمنوں کو خدا کی وحدانیت کے اقرار سے روک رکھا تھا وھی بیھودہ خاندانی عقائد اوراپنے خداوٴں پر فخر و مباہات اور قوم پرستی پر تکبر و غرور اور ایک قبیلے کا دوسرے قبیلے والوں سے کینہ و عداوت تھیم یہ تمام موانع مکہ اور اطرافیان مکہ میں اسلام کے نشر و اشاعت میںاس وقت تک رھے جب تک پیغمبر(ص) نے مکہ فتح کر نہ لیا تھا اور صرف اسلام کی قدرت کاملہ سے ھی یہ تمام موانع ختم ھوئے۔

مسلمانوں پر قریش کی زیادتی سبب بنی کہ ان میں سے کچھ لوگ حبشہ اور کچھ لوگ مدینہ کی طرف ہجرت کریں، اور پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم)اور حضرت علی (ع) جنھیں خاندان بنی ہاشم خصوصاً حضرت ابوطالب کی مکمل حمایت حاصل تھی لیکن جعفر بن ابی طالب مجبور ھوئے کہ بعثت کے پانچویں سال چند مسلمانوں کے ساتھ مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کریں اور ہجرت کے ساتویں سال (فتح خیبر کے سال) تک وھیں پررھیں۔

بعثت کا دسواں سال پیغمبر اسلام(ص) کے لئے بہت سخت تھا، جب آپ کے حامی اور پشت پناہ اور مربی اور عظیم چچا کا انتقال ھوگیا۔ ابھی آپ کے چچا جناب ابوطالب کی وفات کو چند دن نہ گزرے تھے کہ آپ کی عظیم و مہربان بیوی حضرت خدیجہ کا بھی انتقال ھوگیا۔ جس نے اپنی پوری زندگی اور جان و مال کو پیغمبر کے عظیم ہدف پر قربان کرنے پر کبھی دریغ نھیں کیا، پیغمبر اسلام (ص)ان دو باعظمت حامیوں کی رحلت کی وجہ سے مکہ کے مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم و زیادتی ھونے لگی ، یہاں تک کہ بعثت کے تیرھویں سال تمام قریش کے سرداروں نے ایک میٹنگ میں یہ طے کیا کہ توحیدکی آواز کو ختم کرنے کے لئے پیغمبر(ص) کو زندان میں ڈال دیا جائے یا انھیں قتل کردیا جائے یا پھر کسی دوسرے ملک میں قیدکردیاجائے تاکہ یہ آواز توحید ھمیشہ کے لئے خاموش ھو جائے، قرآن مجید نے ان کے ان تینوں ارادوں کا تذکرہ کیاھے۔

ارشاد قدرت ھے:

<وَإِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِیُثْبِتُوکَ اٴَوْ یَقْتُلُوکَ اٴَوْ یُخْرِجُوکَ وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللهُ وَاللهُ خَیْرُ الْمٰاکِرِیْنَ>[30]

    اور (اے رسول وہ وقت یاد کرو) جب کفار تم سے فریب کر رھے تھے تاکہ تم کوقید کرلیں یاتم کومار ڈالیں یا تمھیں (گھر سے) باہر نکال دیں وہ تو یہ تدبیر کر رھے تھے اور خدا بھی (ان Ú©Û’ خلاف) تدبیر کر رہا تھا اور خدا تو سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر Ú¾Û’Û”

قریش Ú©Û’ سرداروں Ù†Û’ یہ Ø·Û’ کیا کہ ہر قبیلے سے ایک شخص Ú©Ùˆ چنا جائے اور پھر یہ منتخب افراد نصف شب میں یکبارگی محمد (صلی الله علیه Ùˆ آله Ùˆ سلم)Ú©Û’ گھر پر حملہ کریں اور انھیں Ù¹Ú©Ú‘Û’ Ù¹Ú©Ú‘Û’ کردیں اور اس طرح سے مشرکین بھی ان Ú©ÛŒ تبلیغ اور دعوت حق سے سکون پا جائیں Ú¯Û’ اور ان کا خون پورے عرب Ú©Û’ قبیلوں میں پھیل جائے گا۔ اور بنی ہاشم کا خاندان ان تمام قبیلوں سے جو اس خون Ú©Û’ بہانے میں شامل تھے جنگ Ùˆ جدال نھیں کرسکتے، فرشتہٴ وحی Ù†Û’ پیغمبر(ص)  Ú©Ùˆ مشرکوں Ú©Û’ اس برے ارادے سے باخبر کیا اور Ø­Ú©Ù… خدا Ú©Ùˆ ان تک پھونچایا کہ جتنی جلدی ممکن Ú¾Ùˆ مکہ Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر یثرب Ú†Ù„Û’ جائیں۔

ہجرت Ú©ÛŒ رات آگئی ،مکہ اور پیغمبر اسلام(ص) کا گھر رات Ú©Û’ اندھیروں میں Ú†Ú¾Ù¾ گیا ،قریش Ú©Û’ مسلح سپاھیوں Ù†Û’ چاروں طرف سے پیغمبر(ص)Ú©Û’ گھر کا محاصرہ کرلیا اس وقت پیغمبر(ص)  Ú©Û’ لئے ضروری تھا کہ گھر Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر Ù†Ú©Ù„ جائیں اور اس طرح سے جائیں کہ لوگ یھی سمجھیں کہ پیغمبر گھر میں موجود ھیں اور اپنے بستر پر آرام فرما رھے ھیں۔ لیکن اس کام Ú©Û’ لئے ایک ایسے بہادر اور جانباز شخص Ú©ÛŒ ضرورت تھی جو آپ Ú©Û’ بستر پر سوئے اور پیغمبر Ú©ÛŒ سبز چادر Ú©Ùˆ اس طرح اوڑھ کر سوئے کہ جو لوگ قتل کرنے Ú©Û’ ارادے سے آئیں وہ یہ سمجھیں کہ پیغمبر ابھی تک گھر میں موجود ھیں اور ان Ú©ÛŒ نگاھیں صرف پیغمبر Ú©Û’ گھر پر رھے اور Ú¯Ù„ÛŒ Ú©ÙˆÚ†ÙˆÚº اور مکہ سے باہر آنے جانے والوں پر پابندی نہ لگائیں ØŒ لیکن ایسا کون Ú¾Û’ جو اپنی جان Ú©Ùˆ نچھاور کرے اور پیغمبر Ú©Û’ بستر پر سو جائے؟ یہ بہادر شخص ÙˆÚ¾ÛŒ Ú¾Û’ جو سب سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ آپ پر ایمان لایا اور ابتدائے بعثت سے Ú¾ÛŒ اس شمع حقیقی کا پروانہ Ú©ÛŒ طرح محافظ رہا، جی ہاں یہ عظیم المرتبت انسان حضرت علی (ع) Ú©Û’ علاوہ کوئی اور نہ تھا اور یہ افتخار بھی اسی Ú©Û’ حصہ میں آیا، یھی وجہ Ú¾Û’ کہ پیغمبر Ù†Û’ حضرت علی  -کومخاطب کرتے ھوئے فرمایا: مشرکین قریش مجھے قتل کرنا چاہتے ھیںاور ان کا یہ ارادہ Ú¾Û’ کہ یک بارگی مل جل کر میرے گھر پر حملہ کریںاور مجھے بستر پر Ú¾ÛŒ قتل کردیں۔ خداوند عالم Ù†Û’ مجھے Ø­Ú©Ù… دیا Ú¾Û’ کہ میں مکہ سے ہجرت کرجاوٴں ۔اس لئے ضروری Ú¾Û’ کہ آج Ú©ÛŒ شب تم میرے بستر پر سبز چادر کواوڑھ کر سوجاوٴ تاکہ وہ لوگ یہ تصور کریں کہ میںابھی بھی گھر میں موجود Ú¾ÙˆÚº اور اپنے بستر پر سو رہا ھوںاور یہ لوگ میرا پیچھا نہ کریں۔ حضرت علی پیغمبر Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… Ú©ÛŒ اطاعت کرتے ھوئے ابتداء شب سے پیغمبر اسلام Ú©Û’ بستر پر سوگئے۔

چالیس آدمی ننگی تلواریں لئے ھوئے رات بھر پیغمبر(ص) کے گھر کا محاصرہ کئے رھے اور دروازے کے جھروکوں سے گھر کے اندر نگاھیں جمائے تھے اور گھر کے حالات کا سرسری طور پر جائزہ لے رھے تھے ، ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ خود پیغمبر اپنے بستر پر آرام کر رھے ھیں۔ یہ جلاد صفت انسان مکمل طریقے سے گھر کے حالات پر قبضہ جمائے تھے اور کوئی چیز بھی ان کی نگاھوںسے پوشیدہ نھیں تھی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 next