حضرت علی(ع) کے فضائل و کمالات



ایک اور مقام پر امام  علیه السلام سب سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ اسلام قبول کرنے کا تذکرہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں :

”اللُھَّم اِنِّی اَوَّلُ مَنْ اَنَابَ وَسَمِعَ وَاٴجاَبَ لَمْ یَسْبِقْنِیْ اِلاَّرَسُوْلُ اللّٰہ (ص) بِالصَّلاَةِ“[10]

پر وردگارا ، میںپھلا وہ شخص ھوں جو تیری طرف آیا اور تیرے پیغام کو سنا اور تیرے پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہا اور مجھ سے پھلے پیغمبر کے علاوہ کسی نے نماز نھیں پڑھی۔

 Ø¹ÙÛŒÙ کندی کا بیان :

عفیف کندی کہتے ھیں :ایک دن میں کپڑااور عطر خریدنے کے لئے مکہ گیا اور مسجدالحرام میں عباس بن عبدالمطلب کے بغل میں جاکر بیٹھ گیا ،جب سورج اوج پر پھونچا تو اچانک میں نے دیکھا کہ ایک شخص آیا اور آسمان کی طرف دیکھا پھر کعبہ کی طرف رخ کرکے کھڑا ھوا، کچھ ھی دیر گزری تھی کہ ایک نوجوان آیا اور اس کے داہنے طرف کھڑاھو گیا پھر ایک عورت آئی اور مسجد میں داخل ھوئی اور ان دونوں کے پیچھے آکر کھڑی ھوگئی پھر وہ تینوں نمازوعبادت میں مشغول ھوگئے ، میں اس منظر کو دیکھ کر بہت متعجب ھواکہ مکہ کے بت پرستوں سے ان لوگوں نے اپنے کو دور کر رکھا ھے اور مکہ کے خداؤ ں کے علاوہ دوسرے خدا کی عبادت کررھے ھیں۔ میں حیرت میں تھا ، میں عباس کی طرف مخاطب ھوا اور ان سے کہا ۔”اَمرٌعَظِیمٌ “،عباس نے بھی اسی جملے کو دہرایا اور فرمایا ۔کیا تم ان تینوں کوپہچانتے ھو؟

میں Ù†Û’ کہا نھیں انھوں Ù†Û’ کہا Û” سب سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ جو مسجد میں داخل ھوا اور دونوں آدمیوں سے Ø¢Ú¯Û’ کھڑا ھوا وہ میرا بھتیجا محمد بن عبداللہ Ú¾Û’ اور د وسراشخص جو مسجد میں داخل ھوا وہ میرا دوسرا بھتیجا علی ابن ابی طالب Ú¾Û’ اوروہ خاتون محمد Ú©ÛŒ بیوی Ú¾Û’ اور اس کا دعوی Ú¾Û’ کہ اس Ú©Û’ تمام قوانیں    خدا وند عالم Ú©ÛŒ طرف سے اس پر نازل ھوئے ھیں ØŒ اور اس وقت کائنات میں ان تینوں Ú©Û’ علاوہ کوئی بھی اس دین الھی کا پیرو نھیں Ú¾Û’Û”[11]

ممکن Ú¾Û’ یہاں پر سوال کیا جائے کہ اگر حضرت علی علیه السلام  Ù¾Ú¾Ù„Û’ وہ شخص ھیں جو بعثت پیغمبر (صلی الله علیه Ùˆ آله Ùˆ سلم)Ú©Û’ بعد ان پر ایمان لائے تو بعثت سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ حضرت علی علیه السلام Ú©ÛŒ وضعیت کیا تھی؟۔

اس سوال کا جواب بحث Ú©Û’ شروع میں بیان کیا گیا Ú¾Û’ جس سے واضح اور روشن ھوتاھے کہ یہاں پر ایمان سے مراد، اپنے دیرینہ ایمان کا اظہار کر نا Ú¾Û’ جو بعثت سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ حضرت علی Ú©Û’ دل میں موجزن تھا،اور ایک لمحہ Ú©Û’ لئے بھی حضرت علی علیه السلام سے دور نہ ھوا ØŒ کیونکہ پیغمبر Ú©ÛŒ مسلسل تربیت ومراقبت Ú©ÛŒ وجہ سے حضرت علی علیه السلام  Ú©Û’ روح ودل Ú©ÛŒ گہرائیوں میں ایمان رچ بس گیا تھااور ان کا مکمل وجودایمان واخلاص سے مملو تھا Û”

ان دنوں جب کہ پیغمبر مقام رسالت پر فائز نہ ھوئے تھے ،حضرت علی علیه السلام پر لازم تھا کہ رسول اسلام کے منصب رسالت پر فائز ھونے کے بعد پیغمبر سے اپنے رشتے کو اور مستحکم کرتے اور اپنے دیرینہ ایمان اور اقرار رسالت کو ظاہر اور اعلان کرتے، قرآن مجید میں ایمان و اسلام کا استعمال اپنے دیرینہ عقیدہ کے اظہار کے متعلق ھوا ھے ۔مثلاً خدا وند عالم نے جناب ابراھیم کو حکم دیا کہ ا سلام لاؤ جناب ا براھیم کہتے ھیں ،میں سارے جہان کے پروردگارپر ایمان لایا۔

قرآن مجید نے پیغمبر کے جملے کو نقل کیا ھے، پیغمبر خود اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ھیں:وَاُمِرْتُ اَنْ اَسْلَمَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ (مومن۶۶)اور مجھے تو یہ حکم ھوچکا ھے کہ اپنے بارے میں سارے جہان کے پالنے والے کا فر ماںبر دار بنوں ،حقیقتاًان موا رد اور ان سے مشابہت رکھنے والے تمام موارد میں اسلام سے مراد ، خدا کے سامنے اپنی سپردگی کا اظہار کرنا اور اپنے ایمان کوظاہر کرناھے ، جو انسان کے دل میں موجود تھا،اور اصلاً اسلام کے اظہار کا مطلب ایمان کا حاصل کرنا یا ایمان لانا نھیں ھے ،کیونکہ پیغمبر اسلام اس آیت کے نازل ھونے سے پھلے بلکہ بعثت سے پھلے موحد اور خدا کی بارگاہ میں اپنے کو تسلیم کرنے والے تھے اس بنا بر ثابت ھے کہ ایمان کے دو معنی ھیں ،



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 next