حضرت علی(ع) کے فضائل و کمالات



حضرت علی علیه السلام Ú©Ùˆ ساٹھ سال تک منبروں ØŒ نشستوںمیں وعظ Ùˆ نصیحت اور خطباء Ú©Û’ ذریعے،اور درس وتدریس Ú©Û’ ذریعے، خطباء اور محدثین Ú©Û’ درمیان معاویہ Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… سے برا بھلا کہا جاتا رہا اور یہ سلسلہ اس قدر مفید Ùˆ موٴثر ھوا کہ کہتے ھیں کہ ایک دن حجاج Ù†Û’ کسی مرد سے غصہ میں بات Ú©ÛŒ اور وہ شخص قبیلہ Ù´   ”بنی ازد“ کا رہنے والا تھا،اس Ù†Û’ حجاج Ú©Ùˆ مخاطب کرتے ھوئے کہا: اے امیر! مجھ سے اس انداز سے بات نہ کرو، Ú¾Ù… بافضیلت لوگوں میں سے ھیں۔ حجاج Ù†Û’ اس Ú©Û’ فضائل Ú©Û’ متعلق سوال کیا اس Ù†Û’ جواب دیا کہ ھمارے فضائل میں سے ایک فضیلت یہ Ú¾Û’ کہ اگر کوئی چاہتا Ú¾Û’ کہ Ú¾Ù… سے تعلقات بڑھائے تو سب سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ Ú¾Ù… اس سے یہ سوال کرتے ھیں کہ کیا وہ ابوتراب Ú©Ùˆ دوست رکھتا Ú¾Û’ یا نھیں؟!

اگر وہ تھوڑا بہت بھی ان کا چاہنے والا ھوتا Ú¾Û’ تو ہرگز Ú¾Ù… اس سے تعلقات Ùˆ رابطہ برقرار نھیں کرتے Û” علی علیه السلام اور ان Ú©Û’ خاندان سے ھماری دشمنی اس حد تک Ú¾Û’ کہ ھمارے قبیلے میں کوئی بھی ایسا شخص نھیں ملے گا کہ جس کا نام حسن یا حسین Ú¾Ùˆ اور کوئی بھی Ù„Ú‘Ú©ÛŒ ایسی نھیں ملے Ú¯ÛŒ جس کا نام فاطمہ Ú¾ÙˆÛ” اگر ھمارے قبیلے Ú©Û’ کسی بھی شخص سے یہ کہا جائے کہ علی  -سے کنارہ Ú©Ø´ÛŒ اختیار کرو تو فوراً اس Ú©Û’ بچوں سے بھی دوری اختیار کرلیتا Ú¾Û’Û”[21]

خاندان بنی امیہ کے لوگوں نے مولائے کائنات حضرت علی (ع) کے فضائل کو پوشیدہ رکھااور ان کے مناقب سے انکار کیا اور اتنا برا بھلا کہا کہ بزرگوں اور جوانوں کے دلوں میں رسوخ کر گیااور لوگ حضرت علی (ع) کو براکہنا ایک مستحب عمل سمجھنے لگے ۔اور بعض لوگوں نے اسے اپنا اخلاقی فریضہ سمجھا۔ جب عمر بن عبد العزیز نے چاہاکہاسلامی معاشرے کے دامن پر لگے اس بد نما داغ کو پاک کرے، تو بنی امیہ کی روٹیوں پر پلنے والے کچھ لوگوںنے نالہ و فریاد بلند کرنا شروع کردیاکہ خلیفہ ،اسلامی سنت کو ختم کرنا چاہتا ھے۔

    ان تمام چیزوں Ú©Û’ باوجود اسلامی تاریخ Ú©Û’ اوراق آج بھی گواھی دے رھے ھیں کہ بنی امیہ Ú©Û’ بد خصالوں Ù†Û’ جو نقشہ کھینچا تھا ان Ú©ÛŒ آروزئیں خاک میں مل گئیں اوران Ú©ÛŒ مسلسل کوششوں Ù†Û’ توقع Ú©Û’ خلاف نتیجہ دیااور فضائل Ùˆ مناقب امام (ع) اموی خطیبوں Ú©Û’ چھپانے Ú©Û’ باوجود سورج Ú©ÛŒ طرح چمکا، اور اس Ù†Û’ نہ صرف یہ کہ لوگوں Ú©Û’ دلوں میں حضرت علی (ع) Ú©ÛŒ محبت Ú©Ùˆ بیدار کیابلکہ یہ سبب بنا کہ لوگ حضرت علی علیه السلام Ú©Û’ بارے میں بہت زیادہ تلاش Ùˆ جستجو کریں اور امام  علیه السلام Ú©ÛŒ شخصیت پر سیاست Ú©ÛŒ عینک اتار کر قضاوت کریں، یہاں تک کہ عبداللہ بن زبیر کا پوتا عامر جو خاندان علی کا دشمن تھا اپنے بیٹے Ú©Ùˆ وصیت کرتا Ú¾Û’ کہ علی Ú©Ùˆ برا کہنے سے باز آجائے کیونکہ بنی امیہ Ù†Û’ ساٹھ سال تک منبروں سے علی پر سب Ùˆ شتم کیا لیکن نتیجہ Ú©Ú†Ú¾ بھی نہ نکلا بلکہ حضرت علی (ع) Ú©ÛŒ شخصیت اور بھی اجاگر ھوتی گئی اور لوگوںکے دلوں میں ان Ú©ÛŒ محبت اور بھی بڑھتی گئی۔[22]

پھلا مددگار

مولائے کائنات کے فضائل کا چھپانا اور ان کے مسلم حقائق کے بارے میں منصفانہ تحلیل تحلیل نہ کرنا صرف بنی امیہ کے زمانے سے مخصوص نھیں تھا بلکہ بشریت کے اس نمونہء کامل ھمیشہ ہتک کی متعصب مؤرخین نے مولائے کائنات حضرت علی (ع) کے خاندان اور ان کے حق پر حملہ کرنے سے گریز نھیں کیا ھے ۔اور آج بھی جب کہ اسلام آئے ھوئے چودہ صدیاں گزر گئیں وہ لوگ جو اپنے کو نئی نسل کا رہبر اور روشنفکر تصور کرتے ھیں اپنے زہریلے قلم کے ذریعے اموی مقاصد کی مدد کرتے ھیں اور مولائے کائنات کے فضائل و مناقب پر پردہ ڈالتے ھیں جس کی ایک واضح مثال یہ ھے:

    غار حرا میں Ù¾Ú¾Ù„ÛŒ مرتبہ پیغمبر (ص) Ú©Û’ قلب پر وحی الھی کا نزول ھوا اور پیغمبر (ص) منصب رسالت Ùˆ نبوت پر فائز ھوئے، وحی Ú©Û’ فرشتے Ù†Û’ اگرچہ آپ Ú©Ùˆ مقام رسالت سے آگاہ کردیا لیکن اعلان رسالت کا وقت معین نھیں کیا ،لہٰذا پیغمبر (ص) Ù†Û’ تین سال تک عمومی اعلان سے گریز کیا اور جب بھی راستے میں شائستہ اور معتبر افراد سے ملاقات ھوتی یا خصوصی ملاقات ھوتی تو ان Ú©Ùˆ اس نئے قوانین الھی سے روشناس کراتے اور چند گروہ Ú©Ùˆ اس نئے قانون الھی Ú©ÛŒ دعوت دیتے، یہاں تک کہ وحی کا فرشتہ نازل ھوا اور خداوند عالم Ú©ÛŒ طرف سے Ø­Ú©Ù… دیا کہ اے پیغمبر اپنی رسالت کا اعلان اپنے رشتے داروںاوردوستوں Ú©Û’ ذریعے شروع کریں۔:

<وَاٴَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاٴَقْرَبِینَ  وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنْ اتَّبَعَکَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ  فَإِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ إِنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ > [23]

اور اے رسول! تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب خدا سے) ڈراوٴ اور جو مومنین تمہارے پیرو ھوگئے ھیں ان کے سامنے اپنا بازو جھکاوٴ (تواضع کرو) پس اگر لوگ تمہاری نافرمانی کریں تو تم (صاف صاف) کہہ دو کہ میں تمہارے کرتوتوں سے بری الذمہ ھوں۔

پیغمبر (ص) کی عمومی دعوت کا اعلان رشتہ داروں سے شروع ھونے کی علت یہ ھے کہ جب تک نمائندئہ الھی کے قریبی اور نزدیکی رشتہ دار ایمان نہ لائیں اور اس کی پیروی نہ کریںاس وقت تک غیر افراد اس کی دعوت پر لبیک نھیں کہہ سکتے ،کیونکہ اس کے قریبی افراد اس کے تمام حالات و اسرار اور تمام کمالات و معایب سے آگاہ ھوتے ھیں، لہٰذا اعزہ و احباب کا ان کی رسالت پر ایمان لانا ان کی صداقت کی نشانی شمار ھوگا اور رشتہ داروںکا پیروی و اطاعت سے اعراض کرنا ان کی صداقت سے منہ پھیرنا ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 next