هجرت کے بعد حضرت علی علیه السلام کی زندگی(1)



پیغمبر اسلام نے کاروان قریش سے تجارت کے سامانوں کا تاوان لینے کے لئے قدم اٹھایااور ارادہ کیا کہ سختی سے ان کی تنبیہ کی جائے جنھوں نے مسلمانوں سے ہر طرح کی آزادی کو چھین لیا تھا اور مسلسل انھیں اذیت وتکلیف دیتے رہتے تھے اور ان کے اسباب کی پرواہ تک نہ کرتے تھے۔

اسی وجہ سے پیغمبر ماہ رمضان  Û²Ú¾ میں۳۱۳/ آدمیوںکے ھمراہ کاروان قریش Ú©Û’ مال Ùˆ سامان سے تاوان لینے Ú©Û’ لئے مدینہ سے باہر آئے اور بدر Ú©Û’ کنویں Ú©Û’ پاس ٹھہر گئے، قریش کا تجارتی لشکر شام سے مکہ Ú©ÛŒ طرف واپس جا رہا تھا اور راستے میں اسے ”بدر“ نامی دیہات سے ھوکر گذرنا تھا۔

ابو سفیان جواس قافلے کا سرپرست تھا، پیغمبر کے ارادے سے باخبر ھوگیا اوراس خبر کو قریش کے سرداروں کے پاس ضمضم کے ذریعے بھیج دیا اور اسے قریش کے سرداروں کے پاس اپنا پیغام بھیجوانے کے لئے اجیر کرلیا تاکہ لوگ قافلے کی مدد کرنے جلد سے جلد آجائیں۔ ضمضم نے جوماحول بنایا وہ باعث ھوا کہ قریش کے تمام بہادر نوجوان اور جنگجو،قافلے کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ھوں اور جنگ کے ذریعے اس کام کا خاتمہ کردیں۔

قریش Ù†Û’ ایسے نو سو سپاھیوں کا لشکر تیار کیا جوجنگ Ú©Û’ امور میں پختہ دلیری سے Ù„Ú‘Ù†Û’ والے  بہترین اسلحوںکے ساتھ ”بدر“ Ú©ÛŒ طرف روانہ ھوئے لیکن مقصد پر پھونچنے سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ Ú¾ÛŒ راستے میںابوسفیان Ú©Û’ دوسرے ایلچی Ù†Û’ اس خبر سے آگاہ کیا کہ قافلے Ù†Û’ اپنا راستہ بدل دیا Ú¾Û’ اور ایک دوسرے راستے سے مسلمانوں سے بچ کر Ù†Ú©Ù„ گیا اوراپنے Ú©Ùˆ محفوظ کرلیا Ú¾Û’ØŒ لیکن ان لوگوں Ù†Û’ اسلام کو، جوابھی شباب Ú©ÛŒ منزل پر پھونچا تھا سرکوبی Ú©Û’ لئے اپنے ہدف Ú©ÛŒ طرف سفر جاری رکھااور Û±Û· رمضان Û²  Ú¾ Ú©ÛŒ صبح کوایک پہاڑ Ú©Û’ پیچھے سے بدر Ú©Û’ میدان میں وارد ھوئے۔

مسلمان بدر کے شمالی طرف سے گذرنے والے درہ کی ڈھلان ”العدوة الدنیا“[14]کوپناہ گاہ بنائے ھوئے قافلہ کے گذر نے کا انتظار کر رھے تھے۔ کہ اچانک یہ خبر پھونچی کہ قریش کا لشکر اپنے تجارتی سامان کی حفاظت کے لئے مکہ سے روانہ ھوچکا ھے اورالعدوة القصویٰ [15] درہ کی بلندی سے نیچے اتر رہا ھے ۔

    پیغمبر اسلام کا انصار سے عہد Ùˆ پیمان، دفاعی تھانہ کہ جنگی، انھوں Ù†Û’ عقبہ میں پیغمبر Ú©Û’ ساتھ عہد کیا تھا کہ اگر دشمن Ù†Û’ مدینہ پر حملہ کیا تووہ پیغمبر اکرم (ص)کا دفاع کریں Ú¯Û’ نہ یہ کہ ان Ú©Û’ ساتھ مدینہ Ú©Û’ باہر دشمنوں سے لڑیںگے Û” لہٰذا پیغمبر اسلام Ù†Û’ سپاھیوںکی ایک میٹنگ جوکچھ جوانان انصار اور Ú©Ú†Ú¾ مہاجرین Ú©Û’ نوجوانوں پر مشتمل تھی بلائی اور اس میں لوگوں کا نظریہ جاننا چاہا۔ اس میٹنگ میں جونظریات وجود میں آئے وہ یہ تھے کہ Ú©Ú†Ú¾ لوگوںنے شجاعت Ùˆ بہادری Ú©ÛŒ بات Ú©ÛŒ اور Ú©Ú†Ú¾ لوگوںنے بزدلی اور عاجزی وبے چارگی Ú©ÛŒ باتیں کیں۔

سب سے پھلے ابوبکر اٹھے اور کہا:

قریش کے بزرگان اورنوجوان نے اس قافلے سے مقابلے کے لئے شرکت کی ھے، اور قریش آج تک کسی بھی قانون پر ایمان نھیں لائے اورایک لمحہ کے لئے بھی ذلیل ور سوا نھیںھوئے ھیں اور ھم لوگ مکمل تیاری کے ساتھ یہاں نھیں آئے ھیں[16] یعنی مصلحت یہ ھے کہ یہاں سے مدینہ واپس چلے جائیں۔

عمربھی اپنی جگہ سے اٹھے اوراپنے دوست کی بات کی مزید وضاحت کی ۔

اسی وقت مقداد اٹھے اور انھوں نے کہا :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next