هجرت کے بعد حضرت علی علیه السلام کی زندگی(1)



خدا کی قسم ھم بنی اسرائیل کی طرح نھیںھیں جو موسیٰ سے کھیں : ”اے موسیٰ تم اپنے خدا کے ساتھ جاوٴ جہاد کرواورھم لوگ یہاںبیٹھے ھیں“ بلکہ ھم اس کے برعکس کہتے ھیں کہ آپ پروردگار کے زیر سایہ جہاد کیجئے ھم بھی آپ کے ھمراہ جہاد کریںگے۔

طبری لکھتا ھے کہ جس وقت مقداداٹھے اور چاہا کہ گفتگو کریں توپیغمبر اکرم کے چہرے سے غیض و غضب (جو عمر وابوبکر کی باتیں سن کر ھوا تھا) کے آثار نمودار تھے۔ لیکن جب مقداد کی گفتگواور مدد کرنے کی خوشخبری سنا تو آپ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔[17]

سعد معاذ بھی اٹھے اور کہا کہ جب بھی تم اس دریا (بحر احمر Ú©ÛŒ طرف اشارہ) Ú©ÛŒ طرف قدم بڑھاوٴ Ú¯Û’ Ú¾Ù… بھی تمہارے پیچھے پیچھے اپنے قدم بڑھائیں Ú¯Û’ØŒ اور جہاں پر بھی تم مصلحت سمجھناھمیں راستہ دیدینا، اس موقع پر خوشی اور مسرت Ú©Û’ آثار پیغمبر Ú©Û’ چہرہٴ اقدس پر آشکار ھوئے اور خوشخبری Ú©Û’ طور پر ان سے کہا:  میں قریش Ú©Û’ قتل عام Ú©ÛŒ وجہ سے مضطرب Ú¾ÙˆÚºÛ” پھر اسلام Ú©ÛŒ فوج پیغمبر Ú©ÛŒ سپہ سالاری میں وہاں سے روانہ ھوگئی اور دریائے بدر Ú©Û’ کنارے مستقر ھوئی۔

حقیقت کوچھپانا :

 Ø·Ø¨Ø±ÛŒ اور مقریزی جیسے مؤرخین Ù†Û’ کوشش Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ حقیقت Ú©Û’ چہرے کوتعصب Ú©Û’ پردے سے چھپادیں اور شیخین Ú©ÛŒ پیغمبر Ú©Û’ ساتھ ھوئی گفتگو Ú©Ùˆ جس طرح سے کہ واقدی Ù†Û’ مغازی میں نقل کیا Ú¾Û’ اس طرح نقل نہ کریں ،لہذاکہتے ھیں کہ ابوبکر Ù†Û’ اٹھ کر بہترین گفتگو Ú©ÛŒ اور اسی طرح سے عمر Ù†Û’ بھی اٹھ کر اچھی باتیں کیں۔

لیکن ضروری ھے کہ یہاں پران دو تاریخ لکھنے والوں سے سوال کیا جائے کہ جب ان دونوںنے اس میٹنگ میںاچھی اچھی باتیں کھی تھیں تو پھر تم لوگوںنے ان کی اصل گفتگوکو نقل کرنے سے کیوںگریز کیا؟ جب کہ تم لوگوں نے مقداد اور سعد کی گفتگو کو تمام جزئیات کے ساتھ نقل کیا ھے؟ تواگر ان لوگوںنے بھی اچھی گفتگواور عمدہ بات کھی تھی تو کیوں پیغمبر کا چہرہ ان کی باتیں سن کر رنجیدہ ھوگیا جیسا کہ خود طبری نے اس چیز کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ھے؟

    لہذا ضروری Ú¾Û’ کہ حضرت علی علیه السلام Ú©ÛŒ شخصیت Ùˆ عظمت Ú©Û’ بارے میںاس جنگ Ú©Û’ حوالے سے تحقیق Ùˆ جستجو کیا جائے۔

حق و باطل کا مقابلہ

مسلمان اور قریش دونوںگروھوں نے جنگ کے لئے صف بندی شروع کردی، اور چند چھوٹے چھوٹے حادثوں نے آتش جنگ کو شعلہ ور کردیا، ابتدا میں ایک ایک شخص لڑنے کوآمادہ ھوا تین افراد بنام عتبہ پدرہندہ (ابوسفیان کی بیوی کا باپ) اوراس کا بڑا بھائی شیبہ اور عتبہ کا بیٹا ولید میدان جنگ میں آکر کھڑے ھوگئے اور اپنا مقابل طلب کیا ۔سب سے پھلے انصار میں سے تین آدمی ان سے لڑنے کے لئے میدان جنگ میں آئے اور اپنا تعارف کرایا،لیکن مکہ کے بہادروں نے ان سے جنگ کرنے سے پرھیز کیا اور آواز دی ”یٰا مُحَمَّدُ اُخْرُجْ اِلَیْنَا اِکْفَاءَ نٰا مِنْ قَوْمِنٰا“ یعنی اے محمد (صلی الله علیه و آله و سلم)! جو لوگ ھماری قوم اور ھمارے شایان شان ھیںانھیں ھمارے ساتھ جنگ کے لئے بھیجو۔

رسول خدا نے عبیدہ بن حارث بن عبد المطلب اور حمزہ اور علی کوحکم دیا کہ اٹھ کر دشمن کا جواب دیں، اسلام کے تین عظیم سپہ سالار چہرے پر نقاب ڈالے ھوئے میدان جنگ کی طرف روانہ ھوئے۔ ہر ایک نے اپنا اپنا تعارف کرایااو رعتبہ تینوں افراد سے لڑنے کے لئے تیار ھوگیااورکہاکہ یہ سب کے سب ھمارے شایان شان ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next