هجرت کے بعد حضرت علی علیه السلام کی زندگی(1)



۲۔ حضرت امیر المومنین نے ”راٴس الیھود“ کے متعلق اپنے اصحاب کے بعض گروہ کے سامنے جو تفصیلی تقریر فرمائی اس میں اپنی جانثاری کے بارے میںاس طرح اشارہ کیا ھے :

جس وقت قریش کے لشکر نے طوفان کی طرح ھم پر حملہ کیا توانصار اور مہاجرین اپنے گھروں کی طرف روانہ ھوگئے، لیکن میںنے ستر زخم کھانے کے باوجود بھی حضرت کا دفاع کیا۔

پھر آپ Ù†Û’ قبا کواتارااور زخم Ú©Û’ نشانات جوباقی تھے اس پر ہاتھ لگا کر دکھایا، یہاں تک کہ بنا بر نقل ØŒ ”خصال شیخ صدوق“ حضرت علی Ù†Û’ پیغمبر Ú©Û’ دفاع کرنے میںاتنی جانفشانی Ùˆ جانثاری Ú©ÛŒ کہ  آپ Ú©ÛŒ تلوار ٹوٹ گئی اور پیغمبر Ù†Û’ اپنی تلوار، ذو الفقار Ú©Ùˆ حضرت علی Ú©Û’ حوالے کیا تاکہ اس Ú©Û’ ذریعے سے راہ خدا میں جہاد کرتے رھیں۔[37]

۳۔ ابن ابی الحدید لکھتے ھیں:

جب پیغمبر کے اکثر صحابی وسپاھی میدان سے بھاگ گئے تو دشمنوں نے پیغمبر پر اور بڑھ چڑھ کر حملہ کرنا شروع کردیا۔ بنی کنانہ قبیلہ کا ایک گروہ اور بنی عبد مناف قبیلے کا گروہ جن کے درمیان چار نامی پھلوان موجود تھے پیغمبر کی طرف حملہ آور ھوئے۔اس وقت علی علیه السلام پیغمبر کی چاروں طرف سے پروانہ کی طرح حفاظت کر رھے تھے ، اور دشمن کونزدیک آنے سے روک رھے تھے ،ایک گروہ جس کی تعداد پچاس آدمیوں سے بھی زیادہ تھی انھوں نے پیغمبر کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا اور صرف حضرت علی کا شعلہ ور حملہ تھا جس نے اس گروہ کومنتشر کردیا، لیکن وہ پھر دوبارہ آگئے اور پھر سے حملہ شروع کردیا اور اس حملے میں وہ چار نامی پھلوان اوردس دوسرے افراد جن کا نام تاریخ نے بیان نھیں کیا ھے قتل ھوگئے ۔ جبرئیل نے حضرت علی کی اس جانثاری پر پیغمبر کو مبارک باد دی اور پیغمبر نے فرمایا: علی مجھ سے ھیں اور میں علی سے ھوں۔

۴۔ اس پھلے کی جنگوںمیں لشکر کی علمبرداری کے سلسلے میں بہت زیادہ احتیاط رکھی گئی اور پرچم کو بہادر اور دلیر افراد کے ہاتھ میں دیا گیا۔ علمبردار کے بہادر ھونے کی وجہ سے جنگجووں میں بہادری و شجاعت بڑھ گئی اور سپاھیوں کوذہنی خلفشار سے بچانے کے لئے کچھ لوگوں کو لشکر کاعلمبردار معین کیا گیا تاکہ اگر ایک ماراجائے تودوسرااس کی جگہ پر پرچم کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔

قریش، مسلمانوں کی بہادری اورجانثاریوں سے جنگ بدر میں باخبر تھے، اسی وجہ سے اپنے بہت زیادہ سپاھیوں کولشکر کا علمبردار بنایاتھا۔قریش کا سب سے پھلا علمبردار طلحہ بن طلیحہ تھا وہ پھلا شخص تھا جو حضرت علی کے ہاتھوں مارا گیا۔اس کے قتل کے بعد قریش کے پرچم کوافراد درج ذیل نے سنبھالا اور تمام کے تمام حضرت علی علیه السلام کے ہاتھوںمارے گئے۔ سعید بن طلحہ ، عثمان بنم طلحہ ، شافع بن طلحہ، حارث بن ابی طلحہ، عزیز بن عثمان، عبد اللہ بن جمیلہ، ارطاة بن شراحبیل، صواٴب۔

ان لوگوں کے مارے جانے کی وجہ سے قریش کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ گئی، اس طرح سے مسلمانوں نے حضرت علی کی جانثاری کی وجہ سے جنگ فتح کرلی۔[38]

علامہ شیخ مفید اپنی کتاب ”ارشاد“ میں امام جعفر صادق  علیه السلام سے نقل کرتے ھیں کہ قریش Ú©Û’ علمبرداروں Ú©ÛŒ تعداد Û¹/ آدمیوں پر مشتمل تھی اورتمام Ú©Û’ تمام یکے بعد دیگرے حضرت علی Ú©Û’ ہاتھوںمارے گئے۔

ابن ہشام نے اپنی کتاب ”سیرئہ“ میں ان افراد کے علاوہ اور بھی نام ذکر کئے ھیں جو حضرت علی کے پھلے ھی حملہ میں قتل ھوگئے تھے۔[39]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next