امام علیہ السلام کی زندگی کا آخری ورق



”کاٴنِّیِ بِکَ واٴنتَ تُصَلّی لرَ بَّکَ وَقد انبَعثَ اَشقَی الاولین والا خرِینَ شقیقُ عٰاقِرناقَةِ ثَموُدَفَضَربَکَ ضَربَةً عَلیٰ فَرْ قِکَ فَخضَّبَ منِہ ا لْحیتَکَ[19]

یعنی گویامیں دیکھ رہا ھوں کہ تم نماز میںمشغو ل ھو اور دنیا کا سب سے شقی اور بد بخت ترین آدمی ناقہ ٴ ثمود کے مارنے کی طرح کھڑا ھوگا اور تمہارے سر پر ضربت مارے گا اور تمھاری داڑھی کو خون سے رنگین کرے گا ۔

بالآخر کرب اور بے چینی کی رات ختم ھوئی اور علی علیہ السلام سحر کی تاریکی میں نماز صبح ادا کرنے کے لئے مسجد کی طرف گئے چلے ،گھر میں جو مرغابیاں پلی تھیں انھوں نے راستہ روکا اور لبا س سے لپٹ گئیں۔

بعض لوگوں نے چاہا کہ ان سب کو دور کر دیں مگر آ پ نے فرمایا: ”دَعُوْ ھُنَّ فَاِ نَّھُنَّ صَوایحٴُِ تَتْبَعُھٰا نَوایِحُ“ یعنی انھیں ان کے حال پر چھوڑ دو کہ وہ فریا د کر رھی ھیں اور اس کے بعد مسلسل نوحہ و بکا کریں گی۔[20]

امام حسن علیہ السلام نے کہا: بابا: یہ کیسا فال ِ بد بیان کر رھے ھیں؟ فرما یا: اے بیٹا! یہ فالِ بد نھیں کہہ رہا ھوں میرا دل کہہ رہا ھے کہ میں قتل کیا جاوٴںگا[21]

ام کلثوم امام علیہ السلام Ú©ÛŒ گفتگو سن کر مضطرب ھوگئیں اور عرض کیا کہ Ø­Ú©Ù… دے دےجیےٴ کہ جعدہ مسجد میں جائیں اور نماز جماعت پڑھا ئیں Û”      

حضرت نے فرمایا: قضائے الھی سے بھاگا نھیں جاسکتا پھر آپ نے کمر کے پٹکے کو مضبوطی سے باندھا، اور یہ دو شعر پڑھتے ھوئے مسجد کی طرف روانہ ھوگئے:

اُشْدُدْ حَیازِ یْمِکَ لِلْموَتِ            فَانَّ الْموَتَ لاٰ قِیْکاٰ

ÙˆÙŽ لاٰ  تَجزَع  مِن  ÙŽ   الموتِ          اذِاَ حَلَّ بِوَادِیْکاٰ۔[22]

اپنی کمر Ú©Ùˆ مو ت Ú©Û’ لئے محکم باندھ لو کیو نکہ موت تم سے ضرور ملاقات کرے Ú¯ÛŒ اور جب  موت تمھار Û’ قریب آئے تو اس سے فریاد Ùˆ چیخ Ùˆ پکار نہ کرو۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next