تشیع کے اندر مختلف فرقے



سعد بن عبداللہ اشعری کا بیان ھے: امام کاظم(علیہ السلام) کی شھادت کے بعد فرقہٴ ھسمویہ کا یہ عقیدہ تھاکہ امام موسیٰ کاظم(علیہ السلام) کی وفات نھیں ھوئی ھے اور وہ زندان میں بھی نھیں رھے ھیں بلکہ وہ غائب ھو گئے ھیں اور وھی مھدی ھیں، محمد بن بشیر ان کا رھبر تھا اس نے دعوٰی کیا کہ ساتویں امام نے خود اس کو اپنا جانشین بنایا ھے، انگوٹھی اور وہ تمام چیزیں جن کی دینی اوردنیوی امور میں احتیاج ھوتی ھے اسے میرے حوالے کیا ھے اور اپنے اختیارات بھی مجھے دیئے ھیں اور مجھے اپنی جگہ بٹھایا ھے لہذا میں امام کاظم(علیہ السلام) کے بعد امام ھوں محمد بن بشیر نے اپنی موت کے وقت اپنے فرزند سمیع بن محمد کو اپنی جگہ بٹھایا اور اس کی اطاعت کو امام موسیٰ کاظم(علیہ السلام) کے ظھور تک واجب قرار دیا اور لوگوں سے کھا کہ جوبھی خدا کی راہ میں کچھ دیناچاھتا ھے وہ سمیع بن محمد کو عطا کرے ان لوگوں کانام ممطورہ پڑا۔[47]

<۴>ضعیف النفس افراد کا وجود:

شیعوں میں کچھ ضعیف النفس افراد موجود تھے جس وقت امام سے کوئی کرامت دیکھتے تھے تو ان کی عقلیں اس کو تحمل نھیں کرپاتی تھیں اور وہ غلو کر نے لگتے تھے اگرچہ خود ائمہ طاھرین(علیہ السلام) نے شدت سے اس طرح کے عقائد کا مقابلہ کیا ھے، رجال کشی کے نقل کے مطابق بصرہ کے سیاہ نام لوگوں میں سے ستّر لوگوں نے جنگ جمل کے بعد حضرت علی(علیہ السلام) کے بارے میں غلو کیا۔[48]

مفاد پرست اور ریاست طلب افرادان لوگوں کے عقید ے سے سوء استفادہ کرتے تھے ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو منحرف کرتے تھے اور اپنے مفاد میں ان سے کام لیتے تھے جیسا کہ ابی خطاب نے فرقہٴ خطابیہ کو ایجاد کیا اور امام صادق(علیہ السلام) کو مقام پیغمبری میں قرار دیا اورکھا: خدا ان میں حلول کر گیا ھے اور خود کو ان کا جانشین بتایا۔[49]

امام زمانہ(علیہ السلام) کی غیبت صغریٰ میں بھی ابن نصیر نے خود کو پھلا باب اور احکام کے نشر کرنے اور اموال جمع کرنے میں خود کو امام کا وکیل مشھور کیا، اس کے بعد پیغمبری کا دعویٰ کیا اور آخر میں خدائی کا دعویٰ کیا،[50] اس کے چاھنے والوں نے اس کو قبول بھی کرلیا بلکہ اپنے چاھنے والوں کے ایمان کی بنا پر ھی اس نے یہ دعوے کئے تھے اور اسی طرح فرقہ غلات وجود میں آئے۔

غالیوں کے خلاف ائمہ(علیہ السلام) کا مبارزہ

اھم ترین خطروں میں ایک خطرہ جو طول تاریخ میں شیعوں کے لئے چیلنج کا سبب بنا رھا وہ غالیوں کامسئلہ اور عقائد کا شیعوں کی ظرف نسبت دیناھے ھمیشہ شیعوں کے دشمن شیعوں کو ان کے اماموں کے متعلق غلو اور زیادہ روی سے متھم کرتے تھے ھم یھاں غلات کے مختلف فرقوں اور ان کے عقائد کو بیان نھیں کریں گے لیکن قابل توجہ مطلب یہ ھے کہ اھم ترین خصوصیت اور غلات کے تمام فرقوں کے درمیان نقطئہ اشتراک ائمہ اطھار(علیہ السلام) کے بارے میں غلو کرنا ھے اور ان کوخدا کے مرتبہ تک پھنچانا ھے مسلمانوں کے درمیان غلات کاوجود داخلی عوامل سے زیادہ خارجی عوامل کی بنیاد پر ھے جب دشمنان اسلام براہ راست مقابلہ نھیں کرسکے اوروہ تمام تر کوششوں کے باوجود اسلام کو خاطر خواہ نقصان نہ پھنچاسکے تو انھیں یہ حربہ اپنایا، چونکہ اسلام ان کی سر زمینوں میں داخل ھوچکا تھا اور ان کی پوری طرح سے شکست ھوچکی تھی لہٰذا ان کی یہ کوشش یہ رھی کہ اسلام کو داخلی طریقہ سے نقصان پھنچایا جائے اسی وجہ سے انھوں نے اسلام کے پھلے اصول کو مورد ھد ف قرار دیا، سیاسی حکومتیں بھی اس جانب مائل تھیں کہ اھل بیت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چاھنے والوں اور ان کے شیعوںکے درمیان ایسے افراد پیدا ھوںجن کے عقائد کی نسبت شیعوں کی طرف دی جائے اور اس طریقہ سے اھل بیت(علیہ السلام) کے چاھنے والوں کو غالی اور مسلمانوں کے زمروں سے علیحدہ کردیا جائے، اگر چہ یہ سلسلہٴ خلافت امیرالمومنین کے دور سے شروع ھو گیا تھا اور کچھ غیر فعّال لوگ آپ کے بارے میں فراطی عقیدہ رکھنے لگے تھے جب وہ اپنے عقیدہ سے نھیں پلٹے توحضرت نے ان کو ختم کر دیا۔[51]

عبداللہ بن سبا جو ایک موھوم اور خیالی شخص ھے جس نے سب سے پھلے اس کا نام لیا وہ طبری ھے اس نے ابن سبا کی داستان کو سیف ابن عمر سے نقل کیا ھے کہ تمام علمائے رجال ابن سیف کے کذاب ھونے پر متفق ھیں، [52]ائمہ اطھار(علیہ السلام) مسلسل اس طرح کے مسائل سے دوچار تھے اورانھوں نے شدت سے اس کا مقابلہ کیا ھے اور ھمیشہ ان پر لعنت کی ھے اور لوگوں کو ان کے خطرات سے آگاہ کیا ھے اور شیعوں کو حکم دیا ھے کہ ان کے پاس نہ بیٹھیں اور ان سے رابطہ برقرار نہ کریں ۔[53]

 Ø§Ù…ام صادق(علیہ السلام) Ù†Û’ چندغالی لیڈروں کا نام لیا Ú¾Û’ØŒ جیسے مغیرہ بن سعید، بیان، صائدنھدی، حارث شامی، عبداللہ بن حارث، حمزہ بن عمار بربری، اور ابوالخطاب وغیرہ اور ان افراد پر لعنت بھی Ú©ÛŒ Ú¾Û’Û”[54]

یہ لوگ ائمہ طاھرین(علیہ السلام) کی نفرین اور لعنت کی وجہ سے سخت عذاب میں مبتلا ھوتے تھے اور بری حالت میں مارے جاتے تھے جیسا کہ امام رضا(علیہ السلام) نے فرمایا: بنان نے امام سجاد(علیہ السلام) پر جھوٹ کا الزام لگایا خدا نے اس کوتیز تلوار کا مزہ چکھایا، مغیرہ بن سعید نے امام باقر(علیہ السلام) پر جھوٹ کا الزام لگایا کہ اس کو بھی خدا نے تیز تلوار کا مزہ چکھایا، محمد بن بشیر نے امام کاظم(علیہ السلام) کی طرف جھوٹی نسبت دی اس کو بھی خدانے تلوار کے ذریعہ ختم کر دیا ابوالخطاب نے امام صادق(علیہ السلام) کی نسبت جھوٹ الزام لگایا وہ بھی شمشیر کی زد میں آیا اور جو مجھ پر جھوٹ کا الزام لگاتاھے وہ محمد بن فرات ھے۔[55]

امام حسن عسکری(علیہ السلام) کے دور میں غلات کاسلسلہ بھت زیادہ وسیع ھوگیاتھا اس وجہ سے امام(علیہ السلام) نے قاسم یقطینی، علی بن حسکہ قمی، ابن باباقمی فھری،محمد بن نصیر نمیری و فارس بن حاتم قزوینی وغیرہ غلات کے رھبر اور سردار تھے ان لوگو ں پرآپ نے لعنت بھیجی ھے۔[56]

شیعہ نشین علاقہ جیسے قم کہ جو ھمیشہ غالیوں کا مخا لف تھا اور غالیوں کو یھاں سکونت کی اجازت نھیں تھی اس بنا پر ابن داؤد نے حسین بن عبداللہ محررکی سوانح حیات کے ضمن میں یہ تحریر کیا ھے: روایت میں ھے کہ اس کو کسی غالی کے ساتھ ھونے کی بنا پر قم سے نکال دیا گیاتھا۔[57]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next