اسلامی سیاست کافلسفہ



اشتراوس کی نظر کے مطابق، فلسفہ، معرفت کل کو گمان کل کا جانشین بنانے کی ایک کوشش ہے، اس بناپر فلسفہٴ سیاسی بھی امور سیاسی کی ماہیت کو ان امور کے بارے میں گمان کا جانشین بناتا ہے“ اشتراوس فلسفہٴ سیاسی کو تاریخی اور کلاسیک ادوار میں تقسیم کرتا ہے، کلاسیک فلسفہٴ سیاسی کہ جو بطور عمدہ یونانی فلاسفہ کی قلمی آثار میں متجلی ہوتا ہے اور امور ”نیک“ امور ”عادلانہ“ اور مقولات ”خیر“ و ”عدالت“ سے سروکار رکھتا ہے ایسے مقولات عقلی زندگی پر موقوف، یعنی کلاسیکل فلسفہ سیاسی کے بلند وبالا موضوعات ہیں ۔

اس کی نظر میں ماڈرن سیاسی فلسفہ میں اس طرح کا کوئی دغدہ نہیں ہے، ماڈرن سیاسی فلسفہمیں سیاست اور نیک اور عقلی زندگی کا رابطہ کہ جو انسانی فضیلت پر مبتنی ہے، قطع ہوجاتا ہے، اشتراوس کی وضاحت کے مطابق سیاست کے میدان ماڈرن تفکر ”ماکیاولی“(۱) طرز تفکر سے شروع ہوتا ہے اور اب تک اس نے تین ادوار کو طے کیا ہے، اور یہ تین ادوار ماکیاولی، روسو اورآخر میں نتیجہ کے نام سے رقم ہوئے ہیں (گذشتہ حوالہ)

کلائمر رودی نے بھی فلسفہٴ سیاسی کی یہی تعریف کی ہے ، ہر سیاسی عمل، بنیادی سیاسی اقدار کا لازمہ ہے؛ پس پُر واضح ہے کہ سیاسی متفکرین افلاطون سے لے کراب تک اُن اقدار کے بارے میں فکر کریں جو اچھے اور عادلانہ معاشرہ کا اصول ہے، فلسفہٴ سیاسی اچھے معاشرے، عدالت اور اسی طرح کے مسائل سے بحث کرتا ہے ۔

 Ø¹Ù„وم سیاسی Ú©Û’ دوسرے مختلف جزئی موضوعات بھی ہیں اور فلسفہٴ سیاسی ان جزئی موضوعات میں سے بہت Ú©Ù… علمی صفات کا مالک ہے اور سیاسی نظام Ú©Û’ عملی اور ہنجاری روش استلزامات اور ایسے ہی بشر Ú©ÛŒ اقدار اولیہ Ú©Û’ ساتھ اس کا رابطہ ØŒ یہ وہ راہ وروش ہے جس Ú©Ùˆ حکومت اور جامعہ ایجاد کرتی اور شہری نظام اس پر گامزن ہوتے ہیں Û”

سیاسیت کے جدید متفکرین ہرچند کہ علوم سیاسی کو تاحد ممکن علمی بنانے کی کوشش کریں لیکن یہ مسئلہ فلسفہٴ سیاسی کی اہمیت کو کم نہیں کرے گا(Others$ Rodee) ۔

                             

۱۔ وہ سیاست جس کے نہ کوئی اصول ہیں اور نہ کوئی اخلاقی مبانی اور وہ اپنے مقصود تک پہنچنے کے لئے ہر طرح کے عمل کو جائز جانتی ہے یہ لفظ ماکیاول، اٹلی کے سیاستداں اور مصنف کی طرف منسوب ہے،۱۴۶۹، ۱۵۲۷ئئ

اس تعریف میں سائنسی (Scientisistic)نظر کا غلبہ کامل طور سے روشن ہے اور فلسفہ، علوم سیاسی کا اقسام میں سے سب سے کم علمی شاخ سے پہچنوایا گیا ہے ۔ حسین بشیریہ نے بھی فلسفہ سیاسی کی اس کی روش کی خصوصیات کے ساتھ تعریف کی ہے، فلسفہٴ سیاسی غالباً حکومت کی انتزاعی غایتوں اور ان کو مناسب وسائل کے ذریعہ حاصل کرکے حکومت کی بہترین شکل سے سرورکار رکھتا ہے، فلسفہٴ سیاسی کے اصلی موضوعات کو کچھ اس طرح کے مباحث جیسے حقیقت کو ثابت کرنے کی کیفیت، عدالت عمومی خیر وصلاح کے اصول، آزادی اور برادری کے لوازمات، سیاسی زندگی کو اخلاقی اصول کے مطابق ڈھالنا، حکومت کے وجود کی دلیل اور ضرورت، عوام کو حکومت کی اطاعت کے دلائل اور ان کو حکومت کا جزء ہونا، تشکیل دیتے ہیں()بشیریہ، ۱۳۷۹: ص۱۷)

عباس منوچہری نے بھی فلسفہٴ سیاست اس کی خصوصیات پاراڈائمParadigm(نمونوں) کی بنیاد پرتعریف کرنے کی کوشش کی ہے (منوچہری، بغیر تاریخ کے) اس بنیاد پر موصوف نے فلسفہٴ سیاسی کی پاراڈائمی کے بزرگ پس منظر (Macro) کے تحت جستجو کی ہے، یہ پاراڈائم روایتی ماڈرن اور زیادہ ماڈرن پاراڈائم سے عبارت ہیں، روایاتی پاراڈائم کی دو خصوصی خصلتیں ہیں: ایک اس کا فلسفی ہونا اور دوسرے اخلاقی ہونا، اسلامی فلسفہٴ سیاسی کا نظریہ بھی کہ جس کا ایک واضح نمونہ فارابی کی تحریر ہے اسی پاراڈائم سے تعلق رکھتا ہے، ماڈرن زمانہ کے خود دو پاراڈائم ہابزی اور روسوئی ”ہابزی پاراڈائم کی وجہ امتیاز غالباً ”طبیعی حالت سے نکل کر ”مدنی حالت“ میں داخل ہونا ہے“ اس پاراڈائم واضح صفت ، قدرت طلبی کو جائز جانتا ہے؛ لیکن اس نظریہ کے مقابل میں روسوی پاراڈائم ہے جس کی وجہ غالب موجودہ مدنی نظم ونسق جدا، دوسرے نظم ونسق کو برقرار کرنا ہے․․․ اس پاراڈائم میں اخلاق ایک مجموعہ کی طرح ہے اور اجتماعی ذمہ داری فردی آزادی سے قابل تفکیک نہیں ہے“ زیادہ ماڈرن پاراڈائم فوکو اورلیو تار جیسے متفکروں کی محوریت پرتشکیل پاتا ہے اور عمدہ طور سے حیات انسان اور طاقت دنیا کی تاثیر پرمتمرکز ہے، جالب نظر ہے کہ شک گرائی کا زیادہ ماڈرن تفکر بھی ”سوزہ“ کی نفی کے ساتھ عقل کو بھی ردّ کرتا ہے اور ایک طرح کا فلسفہٴ سیاسی کہا جاتا ہے کہ جو عقل کے محور پر مبتنی، یہ بات تواُسی کی طرح ہے کہ ہم سوفسطائی فلسفہ کے بارے میں گفتگو کریں کہ جو خود اپنے اندر تناقضات کا شکار ہے ۔

رافائل Ú©ÛŒ تحلیل Ù†Û’ بھی  فلسفہٴ سیاسی Ú©ÛŒ تحلیل اور اس کیفیت Ú©Ùˆ اہمیت دی ہے، اس Ú©ÛŒ نظر میں فلسفہٴ سیاسی اور نظریہٴ سیاسی ایک دوسرے Ú©Û’ مترادف اور ایک دوسرے Ú©ÛŒ جگہ استعمال Ú©Û’ قابل ہیں، البتہ وہ صراحت Ú©Û’ ساتھ کہتا ہے: ”نظریہ سیاسی“ نظریہ فلسفی اور نظریہ علمی سے عام ہے (5p:1970;Raphael) اس Ú©ÛŒ نظر میں فلسفہٴ سیاسی Ú©Û’ پر اہمیت کام عقیدوں Ú©ÛŒ تنقیدی تحقیق اور سیاسی مفاہم Ú©ÛŒ تشریح ہے (8-12p;ibid)جین ہمپٹن Ù†Û’ آخری دہائی میں اپنے Ú©Ú†Ú¾ قلمی آثار میں، سیاسی فرمانروائی Ú©Ùˆ مدنظر رکھتے ہوئے فلسفہٴ سیاسی Ú©ÛŒ دوقدیم اور جدید ادوار میں تحقیق Ú©ÛŒ ہے اس Ú©ÛŒ نظر میں سیاسی فلسفی معاشرے Ú©ÛŒ روز مرّہ Ú©ÛŒ سیاست سے گذر کر چاہتا ہے کہ ”وہ حکومتوں Ú©ÛŒ بنیاد Ú©ÛŒ گہری تہوں میں چلاجائے اور ان Ú©ÛŒ اخلاقی توجیہہ کودرک کرے․․․ سیاسی فلسفیوں Ú©Ùˆ چاہیے کہ توصیفی سطح سے Ø¢Ú¯Û’ بڑھیں اور اخلاق Ú©Û’ مفہوم Ú©ÛŒ تحلیل اور نظریہ پردازی میں مشغول ہوجائیں تاکہ ممکنہ جوابات Ú©ÛŒ تصویر Ú©Ø´ÛŒ کرسکیں“ (ہمپٹن، Û±Û³Û¸Û°: ص۱۲)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next