اسلامی سیاست کافلسفہ



اس تعریف میں فلسفہ کی انسانی خصلت پر تاکید کی گئی ہے؛ لیکن ہرچند کہ فلسفہ کی بہت سی تعریفوں میں اس قید کا ذکر ہوا ہے پھر بھی اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ خصلت انسانی سے بڑھ کر وہ عقلانی استدلال بھی موجود ہیں جو فہم بشر کے عقلانی استدلال کے مطابق ہیں اسلامی فلسفہٴ سیاست کے اس معنی کے مطابق اُن استدلالات کو جو فہم بشری کے قابل ہیں متون دینی میں جاری کیا جاسکتا ہے ۔

۴) اسلامی فلسفہ سیاست کی روش کی پہچان

اسلامی فلسفہ سیاست کے مباحث میں سے ایک بحث، ایک خاص روش کی وضاحت ہے، بزرگ نظریہ کے مطابق، مباحث عقلی نظری کو اس کے متمرکز ہونے پر تاکید کرنا چاہیے، اسلامی فلسفہ سیاست کا دوسرے مطالعاتی موضوعات جیسے کلام سیاسی، فقہ سیاسی، سیاست نامہ نویسی سے وجہ امتیاز یہ ہے کہ اس میں عقلی استدلال کی کوشش کی جاتی ہے، یہ بات اگرچہ ابتداء میں بہت اچھی لگتی ہے، لیکن اسلامی فلسفہٴ سیاست کی روش شناسی میں چند مسائل کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے ۔

پہلا مسئلہ: اسلامی فلسفہٴ سیاست کا وحیانی تعلیمات سے رابطہ اور اسلامی فلاسفہ کا نصوص دینی (قرآن وروایات) سے کسب فیض کرنا اور ان کو اس کے مباحث کی طرف صحیح راہنمائی کرنا ہے․․․ مسلمان فلاسفہ کا عمدہ مفروض، وحیانی معرفت کو اپنا سرچشمہ قرار دینا ہے کہ جس کی تعلیم انبیاء الٰہی کے ذریعہ بشر کو دی گئی ہے؛ اس جہت سے دورہ اسلامی میں عقل فلسفی کی چشم امید ہمیشہ شریعت اور وحی الٰہی پر لگی رہی اور حقیقت میں وہ ہی اس کا مرجع اور منبع رہا، مسلمان فلاسفہ غالباً حکمت عملی کے میدان میں سیاسی زندگی کے اصول اور کلیّات کو حاصل کرنے کے لئے عقل پر تکیہ کرتے رہے اور سیاسی زندگی کے جزئیات کو شریعت کے کاندھوں پر ڈالتے رہے ۔

یہ امر فارابی، ابن سینا، خواجہ نصیر الدین طوسی اور ایک طرح سے ملّا صدراکی حکمت متعالیہ میں کامل طور سے واضح اور برجستہ ہے ۔

اس نظریہ کی رو سے جہان اسلام کے مغربی فلاسفہ کا دوسرے فلاسفہ سے ایک خاص امتیاز ہے اور انھوں نے ہرچند کہ عقل بشری کو وحی الٰہی کے ساتھ متحد ہونے پر تمسک کیا اور اس کو مانا ہے؛ لیکن فارابی اور ابن سینا کے برخلاف ایک فلسفی کو سیاسی مسائل کے جزئیات میں بھی داخل کردیا ہے، وہ لوگ عقل وشرع کے رابطہ میں ایک خاص معمّا سے دوچار تھے ، ان کی نظر میں ہرچند کہ وحی الٰہی، بشری ہدایت کی راہنمائی تھی لیکن شریعت کے ظواہر کی برتری کو جیسا کہ ان کے علماء اور متکلمین اس کی نمائندگی کرتے تھے، قبول کرنے پر حاضر نہیں تھے، جہان اسلام کے مشرقی فلسفہ میں ایسا معمّا قابل حل تھا، فارابی اور ابن سینا مدینہ فاضلہ میں رئیس اول اور فیلسوف پیغمبر کے نقش قدم پر چلنے کی تاکید کے ساتھ عملی طور سے فلسفہٴ سیاست کو جزئی مسائل میں داخل نہیں کرتے تھے، نتیجةً شریعت اور فقہاء کے حاضر رہنے اور تاثیر گذاری کا زمینہ فراہم تھا، تمدن اسلامی کے مغربی فلاسفہ نہ یہ کہ فقیہوں اور متکلموں کی تحلیل کے سامنے سرتسلیم خم کرلیں بلکہ مدنی زندگی میں عقل کے حضور اور اس کے اعتبار پر اصرار کرتے تھے، اس مسئلہ میں ان فلاسفہ کا راہ حل فلسفہ کا باطن شریعت سے ارتباط دینا تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں فلسفہ اور شریعت کے تعارض کے وقت فلسفہ کو مقدم سمجھا جاتا تھا ، ان فلسفیوں کی طرف سے یہ امر ظواہر شرعی کی تاویل کا باعث ہوتا تھا ، ابن رشد ”تاٴویل“ کی تعریف میں اس طرح اظہار خیال کرتا ہے:

تاویل کے معنی لفظ کو اس کی حقیقی دلالت سے نکال کر مجازی دلالت میں داخل کرنا ہے، بغیر اس کے کہ یہ امر عربی زبان کی عادت جیسے ایک چیز کو اس کی شبیہ چیز یا اس کے سبب یا اس کے لاحق یا مقارن کا نام دینے میں یا اصناف کلام کے دیگر مجازات میں خلل ایجاد کرے (ابن رشد، ۱۹۹۹: ص۹۷)

اس نظریہ کے واضح نمونہ کو ابن رشد کا رسالہ ”فصل المقال“ اور ابن طفیل (۱۹۹۶) کے حی ابن یقظان نامی رسالہ میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے (دیکھیں: فیرحی: ۱۳۸۲)

جہاں اسلام کے مغربی سیاسی فاسقہ میں عقلی روش کی ظواہر شرعی پر برتری کی بنیاد پر مدینہ فاضلہ کی جدید تقسیر اور اس کی متضاد چیزیں بیاں ہوئی ہیں ۔ اس تفسیر کے مطابق وہ معاشرہ جس میں فقط ظواہر شریعت حاکم ہوں اور ان کو فلسفہ اور شریعت کو جمع کرنے کی توفیق نہ ہو تو ایسا مدینہ، مدینہ غیر فاضلہ کے مصادیق میں شمار ہوتا ہے، اسی وجہ سے حی بن یقظان آبسال کے ساتھ سلامان کے ظاہر گرا شہر کو ترک کردیتا اور عقل گرا متفکرین کی جائے سکونت کی طرف کوچ کرجاتا ہے ۔ (ابن طفیل، گذشتہ ص ۲۱۹۔ ۲۱۸)

شہودی یا ذوقی روش بھی استدلالی روشوں کے ہمراہ حکمت اسلامی کی دو شاخوں میں استعمال ہوئی ہے ۔ حکمت اشراقی اور ملاصدرا کی حکمت مقالیہ، حکمی مباحث میں شہودی روشوں سے استفادہ کرنے کی کوشش میں تھیں ۔ ابن سینا کی علمی فعالیتوں کے آخری مراحل میں اس کے ذوقی اور شہودی مباحث کی طرف میلاں کو بھی اس کی کتاب ”الاشارات و التنبیھات“ کے نویں نمط میں دیکھا جاسکتا ہے (خواجہ نصیر، ۱۴۰۳: ج ۳، ص ۳۶۳)۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next