قرآن کی نظر میں وحدت کا مفہوم



تمام اہل ایمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ، لہذا تم لوگ اپنے بھائیوں کے درمیان صلح وصلاح بر قرار کرو ،قرآن مجید نے ایجاد وحدت کے لئے جو روش اختیار کی ہے کہ اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح قائم کرو ، اسکی تاثیر جامعہ اسلام میں مثبت ہے

 

واعتصموا بحبل اللّہ جمیعاًولا تفرقوا

تاریخ بشریت پر اگر غور وفکر کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائیگی کہ آغاز تاریخ سے ہی دو طرح کی سیاست وجود میں آئی ایک سیاست الٰہی دوسری سیاست طاغوتی ، سیاست الٰہی پایۂ توحید پر استوار تھی کہ جسکی رہبریت کی زمہ داری انبیاء و ائمہ معصومین علیہم السلام کے دوش پر تھی لیکن سیاست طاغوتی کی عمارت پایۂ شرک و تفرقہ و جدائی و اختلاف کے بل بوتے پر ٹکی ہوئی تھی ، کہ جسکی باگ ڈور طاغوتی و شیطانی ہاتھوں میں تھی .اگر حکومت اسلامی کی بقاء و حیات توحید سے انسلاک بشریت کی بنا پر ہے ، تو پھر حکومت طاغوتی و استعماری کی بقاء و حیات بشریت کے درمیان تفرقہ و جدائی سے وابستہ ہے چاہے وہ زمانہ ماضی کا ہو یا حال کا قرآ ن مجید بھی اس بات کی تائید کرتے ہوئے فرماتا ہے :

ان فرعون علا فی الارض وجعل اھلھا شیعاً یستضعف طائفة منھم یذبح ابنائھم و یستحی نسائھم انہ کان من المفسدین (قصص ٤)

بیشک فرعون نے روئے زمین پر بلندی اختیار کی اوراس نے اہل زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا کہ ایک گروہ نے دوسرے کو بالکل کمزور بنادیا ، وہ لڑکوں کو تہہ تیغ کر تا تھا اور عورتوں کو زندہ رکھتا تھا ، وہ یقینا مفسدین میں سے تھا .

لیکن سیاست الٰہی کے رہبروں کی سعی تھی کہ لوگوں کو توحید کی دعوت دیں اور اتحاد و اتفاق کے راستے پر گامزن رکھیں لہٰذا فرمایا : الحمد للّٰہ رب العالمین ، ساری تعریف عالمین کے پروردگار کیلئے ہے یہ آیت فقط خدا کی خالقیت کی نشاندہی نہیں کر رہی ہے بلکہ منشاء وحدت کو بھی بیان کر رہی ہے کہ سارے جہان کے افراد ایک خدا سے وابستہ ہیں اور ایک امت سے متصل ہیں ، کہ جسکا مبداء و محور مذہب و ملت نہیں بلکہ خدا وآخرت پر ایمان اور انجام عمل صالح ہے .

 

قرآن اور دعوت وحدت

قرآن کریم نے متعدد طریقوں سے مسلمانوں کو وحدت کی دعوت دی ہے ارشاد ہوتا ہے :



1 2 next