دینی نظام میں قوانین کامقام



لھٰذا،یہ بات بالکل واضح اور روشن ھے کہ معاشرہ قانون کا محتاج ھے ، اور ھر عقل مند انسان یہ جانتاھے کہ بغیر قانون کے اجتماعی زندگی،انسان کا آرام وسکون اوراس سے بڑہ کر معنوی سعادت خطرے میں پڑجاتی ھے ،جو مثالیں ھم نے عرض کی ھیں ان سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ اس طرح کے مقامات کے لئے کافی نھیں ھےں، اور ھم قوانین کے محتاج ھیں اس لئے کہ عقل ،عدل وانصاف کا حکم دیتی ھے ، لیکن ایسی حکمت عملی اپنانے کے لئے جو عدل وانصاف قائم کرے ایک دوسرے قانون کے محتاج ھیں مثال کے طور پر عقل یہ حکم دیتی ھے کہ دریائے خزرکے ذخائر کو پڑوسی ممالک میں عادلانہ طور پر تقسیم ھونا چاھیئے ، تواس وقت یہ مسئلہ پیش آئے گاکہ عادلانہ تقسیم کسے کھتے ھیں ؟کیا عادلانہ تقسیم اس کو کھتے ھیں کہ جس ملک کا رقبہ زیادہ ھو وہ ذخائر سے زیادہ فائدہ اٹھائے ،یا جس ملک کے پاس دریا کا ساحلی حصہ زیادہ ھو یا ساحل نشین کی تعدادزیادہ ھو وہ دریا سے زیادہ فائدہ اٹھائے .قانون سازکے مرکزکو اس طرح کے سوالات کا جواب دینا چاھیئے ،اسکے علاوہ دوسرے تمام مقامات کے لئے بھی قانون سازکا ھو نا ضروری ھے ،دیکھنایہ ھے کہ قانو ن ساز کون ھو؟

 

ب .قوانین کا مرضی الھٰی اوردین کے مطابق ھونا ضروری ھے

اسلام کا دعویٰ ھے کہ قوانین کو خدانے بنایا اور پیغمبر اکرم کے ذریعہ لوگوں پر نازل کیاھے لھٰذا پھلی اصل کو قبول کرنے کے بعد قانون کی ضرورت ھے دوسری اصل یہ ھے کہ دین کو قانون ساز کے مرکز کے عنوان سے قبول کریں ،اس مرحلہ میں اسلامی حکومت میں ایسے لوگوں کا ھونا ممکن ھے جودین کو نہ مانتے ھوں چہ جائیکہ ایک شخص غیر اسلامی حکومت میں دین کو قبول کرتا ھو ،اگر کوئی یہ کھے کہ مجھے خداکے وجود میں شک ھے لھٰذامیں دین اور اس کے قوانین کو قبول نھیں کرتا ھوں تو پھلے مرحلہ میں آپ اس کے لئے یہ نھیںثابت کرسکتے کہ قانون خداکو بنانا چاھیئے ،اور بنیادی طور پر جو شخص خدا کو نھیں مانتا ھے وہ قانون الھٰی کو بھی نھیں مانتا ھے ، پھلے فلسفی اور کلامی بحثوں سے خداکے وجود کو ثابت کرنا ھوگا، پھر کلامی اعتبار سے یہ بات ثابت کرنی ھوگی کہ پیغمبراور دین کا بھی وجود ھے .

بعد کے مراحل میں یہ بات بیان کی جائے گی کہ وہ قانون معتبر ھے جس کو خدا نے خود بنایا ھو یا خدا کے کسی وسیلہ کے ذریعہ بناھو ،اس سے پھلے ھم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ممکن ھے کوئی خدا، دین اور نبوت کو قبول کرتا ھو لیکن وہ اس بات کا معتقد نہ ھو کہ سماجی قانون خداکو بناناچاھیئے ،اس کی نظر میںانسان کو خدا کی حمددوثنا، عبادت اور اس سے رازنیاز کرنا چاھیئے مسجدوں اور عبادتگاھوںمیں آمد ورفت رکھنا چاھیئے، لیکن انسان کی سماجی زندگی خداسے متعلق نھیں کہ جس کے لئے خداقانون بنائے ،اس سے قبل کی بحثوں میں ھم نے عرض کیا تھا کہ اس طرح کا نظریہ اسلام کی روسے صحیح نھیں ھے دین اسلام اس بات کو تسلیم نھیں کرتا کہ کو ئی یہ کھے کہ اصل دین یعنی قرآن ، احادیث پیغمبراسلام، متواتر روایات اور پیغمبرو ائمہ علیھم السلام کی سیرت کو تسلیم کرتاھو ںلیکن ایک مسلمان ھونے کی حیثیت سے اسلام کے سماجی قوانین سے میرا کوئی سرو کار نھیں ھے ؟

 

3.دین کی ضروری باتوں کو قبول کرنا لازمی ھے

افکار وعقائد کے مجموعہ میں کچھ ثابت اور یقینی اجزاء ھو تے ھیں جن کو اصطلاح میں .ضروریات کھا جاتا ھے اور جوشخص بھی اس مجموعہ سے واقف ھے چاھے اس کو مانے یا نہ مانے، یہ جانتا ھے کہ وہ مجموعہ ان ثابت اجزاء پر مشتمل ھے دوسرے لفظوں میں ممکن ھے ھر مجموعہ کے سیکڑوں ممبر ھوں، لیکن اس کا ایک معیار ھو نا چاھئے ،تاکہ وہ دوسرے مجموعوں سے الگ ھو سکے ، اس بنا پر اگر کسی نے دین کو ایک مجموعہ کی حیثیت سے قبول کیاھے تو اسے یہ قبول کر نا ھوگا،کہ یہ مجموعہ مستقل، دائمی اور یقینی ممبر رکھتا ھے تاکہ تمام مجموعہ سے الگ پھچانا جائے ، لیکن افسوس ! کچھ افراد کھتے ھیں کہ ھم اسلام کو قبول کرتے ھیں لیکن ھم یہ نھیں تسلیم کرتے کہ اسلام ثابت اصول رکھتاھے اور تمام اشیاء کو مختلف تفسیروں اور مختلف تعبیروں کے قابل جانتا ھے ، وہ لوگ کھتے ھیں کہ ھم اسلام کے مخالف نھیں ھیں لیکن اسلام قبول کرنے سے یہ لازم نھیں آتا کہ سب نماز پڑھیں، وہ نمازکا عقیدہ رکھیں اور بعض افراد پڑھنے کے بھی عادی ھیں لیکن یہ ضروری نھیں ھے کہ جو شخص مسلمان ھے وہ ضرور نماز پڑھے اور نماز کو اسلام کے ثابت ارکان سمجھے !

روزہ کے سلسلے میں اور اسی طرح دوسرے تمام اجتماعی احکام کے بارے میں معتقد ھیں کہ پیغمبر اکرم، ائمہ معصومین علیھم السلام اور تمام مسلمان اس پرعمل کرتے ھیں لیکن یہ تسلیم نھیں کرتے کہ اسلام کا دار ومدار اسی روزہ ھی پر ھے، اگر یہ نہ ھو ں تو اسلام باقی نھیں رھے گا ، یھاںپر ایک سوال یہ پیدا ھو تا ھے کہ اسلام کن بنیادوںپر قائم ھے کہ وہ اگر نہ ھوں تو اسلام باقی نھیں رھے گا ؟کیا آپ یہ تسلیم کر تے ھیں کہ اسلام میں تو حید ایک اصل ھے کہ اگر کو ئی اس کو قبول نہ کرے تو مسلمان نھیں ھے ؟

تو آپ جواب میں کیا کھتے ھیں کہ ھماری فھم کے مطابق اسلام سے یہ مفھوم سمجھنا صحیح ھے ممکن ھے کہ دوسرا شخص اسلام سے ایک دوسرا مفھوم سمجھتا ھو ،لھٰذا ھم یہ کھہ سکتے ھیںکہ اسلام سے صرف ھمارا سمجھنا صحیح ھے ممکن ھے دوسرا شخص اسلام سے یہ سمجھے کہ خداایک ھے یا چند خدا ھیں یا دین اسلام میںخداکا وجود بالکل ھے نھیں ، .اورھم ایسی دلیل پیش نھیں کر تے جو یہ ثابت کرے کہ ھم جو اسلام سمجھے ھیں وہ سب سے زیادہ صحیح ھے ! اگر ھم یہ دعویٰ کریں کہ ھم نے جو کچھ سمجھا ھے وہ بالکل صحیح ھے اور کسی کو دوسری تفسیر کرنے کا حق نھیں ھے، زیادہ سے زیادہ ھم یہ کھہ سکتے ھیں کہ ھماری سمجہ ھماری نظر میں بھتر ھے تو ایسا دوسرں کے بارے میں بھی صحیح ھے.



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next