مذاہب کی مشترکہ بنیادیں قرآنی نظریہ



 

اگر غوروفکر سے کام لیا جائے تو ایک ہی بات کو تین مختلف صورتوں میں بیان کیا گیا ہے ۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنے کا یہ یقینی مطلب ہے کہ کسی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دیا جائے ۔ یہی اُس کی خالص عبادت کا راستہ ہے ۔ اسی طرح توحید پرستی اورشرک کی نفی کا انسانی معاشرے میں عملی نتیجہ یہ ہے کہ سب قومیں اورسب انسان مساوی ہیں، کیونکہ سب مساوی طور پر اللہ کے بندے ہیں ۔ کوئی کسی انسان یا کسی قوم کا بندہ نہیں یعنی کسی فرد کو اور کسی قوم کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے آپ کو ''رب'' کے مقام پر فرض کرے ۔ قوموں اورافراد کے ''ارباب'' ہونے کی نفی کا مطلب یہ ہے کہ سب قومیں ایک دوسرے کے ساتھ مساویانہ اورانسانی برتائو کریں ۔

 

حقیقت یہ ہے کہ بہت سے اہل مذہب توحید پرستی کے معاشرتی اورانسانی پہلو سے غافل ہوگئے ہیں ۔ انسانی معاشرے میں توحید پرستی اورعدم شرک کا معنی یہ ہے کہ سب انسان اللہ کے بندے ہونے کی نسبت سے مساوی ہیں ۔ خدا کا بندہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان کسی انسان کا بندہ نہیں ۔علامہ اقبال نے توحید پرستی کا یہی مطلب سمجھا ہے ۔ وہ کہتے ہیں:

 

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات(٢)

 

اُن کے نزدیک خدا کو سجدہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی اورکو سجدہ نہ کیا جائے ۔ قوموں اورانسانوں کے مابین پرامن بقائے باہم (Peaceful Co-existance) کے لیے ضروری ہے کہ سب قومیں ایک دوسرے کا احترام کریں اورکوئی دوسری قوم کو غلام بنانے کی کوشش نہ کرے ۔

 

حضرت ابراہیم کے بنائے ہوئے ''حرم الٰہی'' یعنی خانہ کعبہ کو علامتی طور پر سارے انسانوں کے لیے ایک مرکز کے طور پر ماننے کا مطلب بھی علامہ اقبال کے نزدیک مساواتِ انسانی ہی ہے ۔ ایسی مساوات جس میں رنگ و نسب کو تفوق و امتیاز کی بنیاد تسلیم نہ کیا جائے ۔ وہ کہتے ہیں:



back 1 2 3 4 5 6 next