حسینیت اور یزیدیت کی شناخت

حجۃ الاسلام جواد نقوی


حسینیت اور یزیدیت کی شناخت کیوں ضروری ہے؟ اگر فقط علم کی حد تک اور معلومات کی حد تک انسان کے علم میں اضافہ ہو تو فرق نہیں پڑتا کہ کربلا کے بارے میں اس کی معلومات زیادہ ہوں یا بغداد کے بارے میں، یہ معلومات انسان کو کہیں بھی نہی پہنچاتیں۔ آج کل کی جو چیز جاننے سے تعلق رکھتی ہے اور ضروری ہے کہ اس سے آگاہ ہوا جائے وہ یہ ہے کہ انسان کربلا میں داخل ہونے کے لیے کوئی راستہ ڈھونڈے، کربلا کے اندر جانے کا کوئی راستہ ڈھونڈ لے،

جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت سید الشہداء علیہ السلام کا تعارف ان الفاظ میں کروایا کہ ''انّ الحسین مصباح الھدیٰ و سفینۃ النجاۃ'' کہ ذات گرامی حسین علیہ السلام ہدایت کے چراغ اور نجات کی کشتی ہیں۔

کشتیاں وہاں انسانوں کو نجات دیتی ہیں جہاں پر گہرے اور عمیق سمندر ہوں اور ان سمندروں میں طوفان بھی ہوں، ان میں ہلاک اور غرق کرنے والی موجیں بھی ہوں، ڈوبنے کا خطرہ ہو، غرق ہونے کا خطرہ ہو، ایسے میں کشتیاں آتی ہیں انسان کو نجات دیتی ہیں اور انسانیت کی نجات کی کشتی کا نام حسین علیہ السلام ہے۔ انسانیت ہلاک کہاں ہوتی ہے، کونسا سمندر ہے، کونسا بحر ہے ایسا عمیق اور گہرا کہ جس میں انسانیت ڈوب کر مر جائے، ہلاک ہوجائے، غرق ہو جائے، وہ ہے کہ جب انسانیت ہلاکت کے قریب جا پہنچے یعنی انسانیت اس حد تک گر جائے، پست ہو جائے، غرق ہو جائے کہ یزید جیسا حکمران، یزیدیت جیسا نظام بر سر اقتدار آ جائے اور انسان بیٹھا تماشا دیکھتا رہے۔ یہ درحقیقت ہلاکت ہے انسانیت کی، بشریت کی۔ اور ایسی ہلاکتوں سے نجات حسینیت کے ذریعے سے ملتی ہے۔ یزیدیت ظلم جوئی کے ایک فرد کا نام ہے۔ یزید ایک طبقہ ہے اور یہ طبقہ ہر دور میں ہے، یزید سے پہلے بھی یہ طبقہ موجود تھا، ابن معاویہ سے پہلے وہ خود بھی یزیدی طبقے سے تھا۔ اور اس کے بعد بھی یزیدی طبقہ موجود ہے اور آج تک یزیدیت موجود ہے اور ایسے ہی حسینیت بھی، حسین ایک فرد کا نام نہیں، حسینی بھی ایک طبقہ کا نام ہے، یہ طبقہ امام حسین علیہ السلام سے پہلے بھی موجود تھا، آپ کے زمانے میں بھی موجود تھا اور آپ کے بعد بھی موجود اور آج بھی موجود ہے اور آئندہ بھی موجود رہے گا۔ یہ تو ہم سنتے آئے ہیں کہ واقعہ کربلا رونما ہوا اور یہ بھی کسی حد تک ہم جانتے ہیں کہ کیسے رونما ہوا، اس کے واقع ہونے کی کیفیت کیا ہے؟، کیا حادثے پیش آئے؟، کیا واقعات پیش آئے؟، کیا رودادیں پیش آئیں؟، یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ کب پیش آیا اور کیسے پیش آیا لیکن اس کے باوجود بہت سارے واقعات ایسے ہیں جو رونما ہوئے اور ہم نہیں جانتے، بہت سارے کردار ایسے ہیں جو کربلا میں موجود تھے اور ہم نہیں جانتے۔

کربلا میں دو قسم کے کردار ہیں، مثبت اور منفی، یزیدی اور حسینی۔ حق میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک کردار ہے اور باطل میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک کردار ہے، خصوصاً ہم سب کو یہ معلوم ہونا چاہیے اور آپ لوگوں کا یہ حق بنتا ہے کہ یہ جو منبر پر آئے اور اسٹیج پر بیٹھے، اس سے پوچھیں کہ ہمیں بتائیں کہ عمر سعد کون تھا؟ کیسے آ گیا؟ اس کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟ یہ کس خاندان کا فرد ہے؟ ا س کو کیوں چنا گیا؟ شمر کون ہے؟ شمر کیسے بن گیا؟ یہ چیزیں ہمیں معلوم ہونی چاہیئے۔ اس لئے کہ یہ افراد نہیں ہیں طبقے ہیں اور ایسے طبقے ہیں جو ہر زمانے میں موجود ہیں۔ اگر ہمیں 61 ہجری کے عمر سعد کا علم ہو جائے تو ہم اپنے زمانے کے عمر سعد کو پہچان سکتے ہیں۔ اگر ہمیں 61 ہجری کے شمر کا علم ہو جائے تو ہم آج کے شمر کو پہچان سکتے ہیں۔ کربلا میں ایک فرد نہیں کھڑا ہوا تھا بلکہ ایک پوری نسل کا وارث کھڑا ہوا تھا۔ نسل انبیاء کا وارث کھڑا ہوا تھا۔ وارث وہ ہوتا ہے کہ جس نے کچھ ارث لیا ہو۔ امام حسین علیہ السلام کس چیز میں وارث تھے؟، آیا انبیاء نے اپنی جائیدادیں، اپنی زمینیں، املاک چھوڑی تھیں امام کیلئے۔ کونسی چیز تھی جو انبیاء علیھم السلام سے ارث ملی ہے۔ اس کو ذہن میں رکھیں کونسی چیز تھی؟ غور کریں کہ کیا چیز تھی جو امام حسین علیہ السلام نے انبیاء علیھم السلام سے ارث میں لی اور اسی وراثت کی حفاظت کیلئے کربلا آنا پڑا، یعنی ارث انبیاء ختم ہو رہا تھا، لُٹ رہا تھا، ارث انبیاء خطرے میں تھا۔ امام حسین علیہ السلام کے مقابلہ میں یزید ہے۔ وہ بھی وارث ہے، وہ بھی تنہا نہیں ہے۔ یعنی وہ بھی ایک نسل کا وارث آ کے کھڑا ہوا ہے۔ وہ کس کا وارث ہے؟ یزید کس کا وارث ہے؟ معاویہ کا وارث ہے، نہ صرف معاویہ کا وارث ہے بلکہ پورے آل سفیان کا وارث ہے، نہ صرف آل سفیان کا وارث ہے بلکہ آل فرعون کا وارث ہے، آل نمرود کا وارث ہے، آل شداد کا وارث ہے، آل قارون کا وارث ہے، آل قابیل کا وارث ہے، یعنی جتنے ستم کار تاریخ میں گزرے ہیں ان سب کا وارث ہے۔ چونکہ ظالم کو بھی ارث ملتا ہے۔ مظلوم کو بھی ارث ملتا ہے۔ درحقیقت یہ دو وارث تھے۔ دو نسلوں کے وارث، دو سلسلوں کے وارث، ایک وارث نسل انبیاء اور ایک وارث نسل ظلم تھا۔ جس طرح یہ وارث تھے اسی طرح مورث بھی ہیں۔ وارث اسے کہتے ہیں جو کسی سے ارث پائے، کسی سے ارث لے، اور مورث اس کو کہتے ہیں جو کسی کے لیے ارث چھوڑے۔ ان دونوں نے اپنے سے پہلے والوں سے ارث لیا اور اپنے بعد والوں کیلئے چھوڑا۔ یعنی یوں نہیں کہ انہوں نے اپنا ارث وہاں دفن کردیا۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی اپنا ارث منتقل کردیا اور یزید نے اپنی وراثت منتقل کردی۔ یعنی جو کچھ فرعون و نمردو سے لیا تھا اس نے وہ کربلا میں لے آیا۔ وہ سب اس نے بعد کیلئے چھوڑا اور اس کی نسل نے اسے سنبھالا۔ امام حسین علیہ السلام کی نسل نے ارثِ حسین کو سنبھالا، پس معلوم ہوا کہ ابھی تک وہ وراثت موجود ہے اور چلی آ رہی ہے۔ ارث حسین علیہ السلام اور ارث یزید بھی، دونوں کا ترکہ دونوں کی وراثت چلی آ رہی ہے۔ اس میں یہ تشخیص دینا اہم ہے کہ مجھے یہ پتا چل جائے کہ میں کس کا وارث ہوں۔ میں نے کس سے کچھ لیا ہے۔ اب ہم یہ تو کہتے ہیں کہ خدا نے ہمیں یہ توفیق اور نعمت عظمیٰ دی ہے کہ ہم اپنے آپ کو حسینی کہتے ہیں۔

حسینی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم حسین علیہ السلام کا نام لیتے ہیں۔ نام حسین تو سب لیتے ہیں، ساری مخلوق حسین علیہ السلام کا نام لیتی ہے، کون نہیں لیتے؟ ہندو لیتے ہیں، مسیحی لیتے ہیں، یہودی لیتے ہیں، سنی لیتے ہیں، شیعہ لیتے ہیں۔ یہ سب حسین علیہ السلام کا نام لیتے ہیں۔ کون ہے جو نہیں لیتا، گاندھی کے بارے میں مشہور ہے کہ انگریز حیران تھے کہ اس شخص نے کیسے اس قوم میں ایک روح پھونک دی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب وہ انٹرویو لینے آئے گاندھی کا اور اس سے پوچھنے لگے کہ آپ نے کیسے اس قوم میں روح پھونک دی ہے اس نے کہا کہ میں نے تاریخ پڑھی ہے اور مجھے معلوم ہوا کہ اس سے پہلے ایک کربلا میں حسین علیہ السلام نامی ایک انسان گزرا ہے، اس نے مجھے سکھایا ہے کہ اس طرح کا کام بھی کیا جا سکتا ہے، میں نے وہاں سے سیکھا ہے۔ حالانکہ وہ حسین علیہ السلام کے خدا کو نہیں مانتا، حسین علیہ السلام کے رسول کو نہیں مانتا، حسین علیہ السلام کے جد کو نہیں مانتا، حسین علیہ السلام کے مذہب پر نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی سید الشہداء کی عظمت کا داعی ہے۔ گاندھی کو ہم حسینی نہیں کہہ سکتے، آیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ گاندھی حسینی ہے، پیرو حسین علیہ السلام ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہتے ہیں حسینی یعنی شیعہ، شیعہ حسین علیہ السلام، شیعہ علی علیہ السلام۔ خود سیدالشہداء علیہ السلام سے حدیث ہے کہ ایک شخص آیا، ظاہراً بصرہ سے تھا، امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں آپ کا شیعہ ہوں۔ اسکا یہ جملہ امام علیہ السلام پر بہت ناگوار گزرا۔ حضرت نے اسے روکا۔ اس سے کہا کہ تم نے بہت بڑا دعویٰ کیا ہے۔ اپنی حد سے تجاوز کیا ہے۔ حضرت نے کہا کہ تم محب ہو ہمارے، شیعہ نہیں ہو۔ تھوڑی دل کو تسلی ہو گئی اور معلوم ہوا کہ محب اور شیعہ میں بہت فرق ہے، حضرت نے فرمایا کہ یہ جو تم ہماری یاد کرتے ہو، ہمیں یاد کرتے ہو، ہمیں ملنے آئے ہو، ہماری زیارت کو آئے ہو، ہمارے دکھوں میں روتے ہو، یہ دلیل ہے کہ تم ہم سے محبت رکھتے ہو۔ یہ ہم مانتے ہیں، تمہاری محبت کو تصدیق کر کے مہر لگاتے ہیں، اس پر تم محب ہو ہمارے، یہ تمہارے اعمال بتاتے ہیں، تم محب ہو ہمارے۔ بعض اوقات دیکھیں کہ بیٹا ملک سے باہر چلا جاتا ہے، ماں یہاں پر موجود ہے دیہات میں، اور یہاں بیٹھ کر بیٹے سے محبت کرتی ہے، بیٹا کوسوں دور ہے اس سے۔ بیٹا فرض کریں امریکہ میں بیٹھا ہے یا امریکہ سے بھی اس طرف پرے کہیں بیٹھا ہو، ماں یہاں اس دیہات میں پاکستان میں،یہاں بیٹھ کر محبت کر رہی ہے۔ پس محبت کیلئے تو زمین اور زمانے فاصلہ نہیں بنتے، رکاوٹیں نہیں بنتے، لہٰذا دور سے بھی محبت کی جا سکتی ہے۔ پس ہو سکتا ہے کچھ لوگ دور بیٹھ کر محبت کریں۔ خود دور ہو لیکن محبت ہو۔ محبت تو رکاوٹ نہیں قبول کرتی۔

امام علیہ السلام اس کو یہی کہہ رہے تھے۔ شیعہ اور محب میں یہی فرق ہے، شیعہ اس محب کو کہتے جو محبت بھی کرتا ہے اور دور بھی نہیں ہوتا۔ اپنے امام سے دور نہیں ہوتا۔ لیکن محب وہ ہوتا ہے جو محبت کرتا ہے لیکن دور بیٹھ کر، محبت کرتا ہے قریب نہیں ہوتا۔ شیعہ وہ ہوتا ہے جو ساتھ چلتا ہے۔

اگر یہ کشتی نجات سمندر میں اتر جائے، چونکہ کشتیاں تو سمندر میں چلتی ہیں وہ بھی طوفانی سمندروں میں، ایک آدمی ساحل پہ بیٹھا رہے خشکی پر اور یہیں سے بیٹھ کر کشتی سے محبت کرے۔ نوح علیہ السلام کو اپنے بیٹے سے محبت تھی، بیٹے کو بھی حضرت نوح علیہ السلام سے محبت تھی، لیکن چونکہ دور ہو گئے، نوح علیہ السلام کی کشتی نجات پر بیٹا سوار نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ باپ بیٹے میں موج حائل ہو گئی اور خدا نے باپ کو بھی روک دیا کہ اب اس بیٹے کا نام نہیں لینا، اگرچہ تم چاہتے ہو اس کو۔ لیکن اس کے مقابلے میں جانور کشتی میں سوار تھے، بچ گئے۔ نوح علیہ السلام کا بیٹا نہیں بچ سکا، جانور بچ گئے۔ چونکہ قریب ہوئے اور ساتھ چلے۔ اہم بات یہ ہے کہ نوح علیہ السلام کے ساتھ جانور چلے تو بھی بچ جاتا ہے اور ساتھ نہ چلے، بیٹا ہو تو بھی غرق ہو جاتا ہے۔ نبی اور امام کا راستہ ایسا ہوتا ہے کہ معمولی آدمی اسے طے نہیں کر سکتا۔ دور بیٹھ کر اس پہاڑ کا نام تھا جودی اس نے خود بھی کہا تھا میں جودی کی چوٹی پر چڑھ جاؤنگا تو بچ جاؤں گا، جودی پر کھڑے ہو کر نوح نوح کرنا یہ ہو سکتا تھا اس سے لیکن نوح علیہ السلام کے ساتھ چلنا اس کیلئے دشوار تھا، نہیں چلا۔ پس یہیں سے سمجھ لیں گاندھی درست ہے محبت ہے اس کو سید الشہداء علیہ السلام کے ساتھ لیکن سید الشہداء علیہ السلام کے ساتھ چل نہیں سکتا۔ حسین علیہ السلام کے کاروان میں شامل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ واقعہ کربلا کب رونما ہوا اور کیسے رونما ہوا، یہ کسی حد تک ہمیں معلوم ہے لیکن ایک بہت ہی اہم نکتہ کربلا کے بارے میں اگر ہمیں معلوم ہو جائے اس سے راز کربلا کھل جاتا ہے۔ اس سے انسان اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس کاروان کے ہمراہ ہو جائے۔ دور نہ بیٹھے۔ یوں نہیں ہے کہ دور سے بیٹھ کر دوربین سے کاروان دیکھ رہا ہو کہ ابھی کہاں پہنچا اور ابھی کہاں پہنچا۔ ایسے نہیں ہے کہ میں یہاں سے بیٹھ کر کہوں کہ ابھی یہ کاروان یہاں پہنچا۔ ریڈیو پر بیٹھ کر جیسے سنتے ہیں۔ ایک خلائی جہاز چاند پر جا رہا ہو، ہم تو نہیں ہیں اس میں لیکن ایک کومنٹیٹر بیٹھا ہوتا ہے ریڈیو پر، وہ ہر لمحہ کی خبر دے رہا ہوتا ہے کہ ابھی یہ جہاز یہاں پہنچا ہے، ابھی یہاں پہنچا ہے۔ ہم اپنے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر صرف سن رہے ہوتے ہیں۔ یا مثلاً آپ کے ملک کی مثال دوں، آپ کے ہاں کرکٹ میچ ہو رہا ہے، میں اور آپ تو اس میں شامل نہیں ہیں، ہم اپنا کام کاج، کھیتی باڑی چھوڑ کر ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتے ہیں۔ اب نہ گیند ہمارے ہاتھ میں نہ بلا ہمارے ہاتھ میں، نہ دوڑیں ہم لگا رہے ہیں، بلکہ ایک کومنٹیٹر بیٹھا ہوتا ہے جو یہ سب کچھ ہمیں بتا رہا ہوتا ہے۔ جنگ خیبر یہودیوں کے خلاف حضرت علی علیہ السلام نے جیتی۔ کیا آج جنگ خیبر نہیں ہے؟، اس جنگ میں عملاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سب کو علم دیے کہ جاؤ سب زور آزمائی کر لو۔ آج بھی یہودیت کے خلاف جنگ لڑے گا تو علی علیہ السلام اور علی علیہ السلام کا پیروکار لڑے گا۔ مولا نے جان بوجھ کر دوسروں کوعلم دیا، معلوم تھا کہ ان سے جنگ نہیں جیتی جا سکتی پھر علی علیہ السلام کو دیا یہ بتانے کیلئے کہ یہودیت کو شکست فقط علوی ہاتھ دے سکتے ہیں۔ آج وہ نسل یہود زیادہ ہے پہلے سے، زیادہ طاقتور ہے پہلے سے، زیادہ خطرناک ہے، لیکن آج بھی وہ علم منتظر ہے، 55 سال سے دوسروں نے اٹھایا، لڑنے کیلئے جمال عبدالناصر نے اٹھایا، حافظ اسد، معمر قذافی نے اٹھایا، یاسر عرفات، عیناً اس طرح اٹھایا جس طرح خیبری لوٹ آئے تھے نہ صرف کچھ لیکر نہ آئے بلکہ کچھ دے کر آئے (آدھا شام ، آدھا لبنان، مصر، اردن، فلسطین)۔ ایسی جنگیں لڑیں لیکن ادھر مٹھی بھر جوان لبنان کے حزب اللہ، پیروان حیدر کرار، مرد کے پیروکار، کوئی حکومت نہیں، فوج نہیں، صرف کیا ہے؟ شیعہ ہیں۔ اس طرح بھگایا کہ بھاگنے کا راستہ بھلوا دیا ،قرارداد لکھنے کی مہلت نہ دی۔ حسینیت یہ ہے۔ فلسطینیوں کو طاقت کی زبان سے کہا دہشت گرد ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ اپنے جسموں سے بم باندھ کر صیہونیوں پر حملے کرتے ہیں۔ یہ راستہ فلسطینیوں نے کہاں سے سیکھا۔ عرب کانفرنس سے تو نہیں سیکھا، انور سادات نے حسنی مبارک نے تو نہیں سکھایا، کس نے سکھایا اُن کو؟ ایسا جملہ صرف ایک جگہ ملتا ہے۔ تاریخ میں فلسطینی جوان لڑکیاں جسم پر بم باندھ کر اسرائیلی ٹینکوں سے ٹکرا رہی ہیں، یہی ذہن میں رکھنا، مائیں جوان بیٹوں کو سنوار کر بموں کا بیلٹ باندھتی ہیں۔ دعا کے ساتھ بھیجتی ہے کہ کہیں راستے میں ناکام نہ ہو جائے۔ یہ درس کہاں سے ملتا ہے؟ کس نے ان کو یہ راہ دکھائی؟۔ ایسی مائیں سوائے کربلا کے کہیں نظر آتی ہیں؟ وھب کلبی کی ماں نے بیٹے کا سر واپس پھینکا اور کہا کہ راہ خدا میں دے کر ہم واپس نہیں لیتے۔ زوجہ نے خیمے کا بانس اٹھایا، حملہ کیا اور میدان کربلا میں واحد شہیدہ خاتون قرار پائی۔ فلسطینیوں نے کربلا سے سیکھا۔ یہ کب ہوتا؟، جب اس بات کا خوف نہ ہو کہ موت ان پر آ پڑے یا وہ موت پر جا پڑیں۔ اس وقت فلسطینی جوان موت کے پیچھے ہیں۔ یہ موت پر جا پڑتے ہیں۔

اگر حضرت علی اکبر علیہ السلام کے جملے کا معنی سمجھے ہیں تو آج فلسطینی سمجھے ہیں۔ یزید نے طاقت کے نشے میں آ کر امام علیہ السلام سے کیا کہا تھا؟، یہی کہ آپ میرے سامنے تسلیم ہو جائیں یا مقابلے میں آ جائیں۔ حسینیت کیا ہے؟ مثلی لا یبا۔۔۔ مجھ جیسا اس جیسے کے سامنے تسلیم نہیں ہوسکتا، ہمارے حکمران ایک ٹیلی فون کال پر اپنے سرمائے، عزت، آبرو، شرافت ختم کر دیتے ہیں۔ مگر اسی دنیا میں ایک حسینی پیروکار، حسینی روح رکھنے والا ایک وہ شخص جس نے موت کو مار دیا۔ اس طاقتور ترین یزید زمانہ کو کیا جواب دیا۔ کہا کہ سب سے بڑے دہشت گرد تم خود ہو۔ ہم نہ صرف ساتھ نہیں دیں گے بلکہ تمہارا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ یزیدیت کا کام ہے خوفزدہ کرنا۔ اردو میں ایک کہاوت ہے کہ اگر کسی کو اپنے رعب میں لانا ہو تو خود ا س کو نہ مارو بلکہ اگر اس کے سامنے بلی مار دی جائے تو وہ خوفزدہ ہو جائے گا۔ استکبار نے ہمارے ساتھ ایسا ہی کیا ہے۔ افغانستان میں نہ کوئی فوج ہے، نہ کوئی مضبوط حکومت، انہوں نے افغانستان پر طرح طرح کا بارود برسایا۔ اتنا اسلحہ استعمال کیا کہ ایک امریکی افسر کہتا ہے ہمارے پاس اسلحہ کم ہو گیا ہے، ہم کچھ عرصہ اسلحہ بنائیں گے تو عراق پر حملہ کریں گے۔ یہ سارا کام اس لئے کیا کہ گویا انہوں نے ہمارے وطن کے ہمسائے میں بلی مار دی۔ اور ہم وہ لوگ ہیں کہ افغانستان پر حملہ ہونے سے ڈر گئے کہ ان کا یہ حشر ہوا تو ہمارا کیا حشر ہو گا، درحقیقت ہمیں ہی ڈرانا مقصود تھا۔ مقصود یہ تھا کہ ہم نہ بولیں کیونکہ صیہونزم کسی اور پرچم سے نہیں ڈرتا بلکہ صرف پرچم حیدر کرار سے ڈرتا ہے۔ اور اگر شیعہ ڈر جائے تو پھر دنیا میں کوئی طاقت نہیں جو انہیں روکے اور آپ نے دیکھا کہ یزیدیت نے کسی بھی زمانے میں ھزیمت اٹھائی ہے تو فقط حسینیت اور تشیع کے ہاتھوں اٹھائی ہے۔ لیکن نہ وہ تشیع کہ جس پر لرزہ طاری ہو۔ نہ وہ حسینیت کہ جو دوسروں کا انجام دیکھ کرسہم جائے بلکہ وہ حسینیت جو لاشیں دیکھ کر ڈرے نہیں بلکہ موت کا تعاقب کرے، جنکے آئیڈیل حضرت علی اکبر علیہ السلام ہوں۔ حضرت علی اکبر علیہ السلام جنہوں نے فرمایا تھا کہ بابا فرق نہیں ہے کہ موت ہم پر آ پڑے یا ہم موت پر جا پڑیں۔ یزیدیت، صیہونیت اور طاقت کو ایسے تشیع سے خطرہ ہے۔ افغانستان پر حملے سے اتنے ڈرے کہ دلیل یہ دینے لگے کہ جو ان کے ساتھ ہوا وہی ہمارے ساتھ بھی ہو گا۔ یہی تو وہ کرنا چاہتے تھے ہمارے ساتھ، امریکہ ہمیں مارنا نہیں چاہتا کیونکہ ہمیں مارنے سے انکو کوئی فائدہ نہیں بلکہ ہمارے ڈرنے سے ان کو مفاد حاصل ہوتا ہے۔ یعنی ہم زندہ رہیں مگر مردہ بن کے رہیں، چلتی پھرتی لاشیں یزیدیت کے بہت کام آتی ہیں۔ پس حسینیت ڈر اور خوف کا نام نہیں ہے بلکہ حسین علیہ السلام نے تو حالت پیاس میں ٧١ لاشے اٹھا کر بھی جنگ کر کے دوسروں کو ڈرایا، جب پیاسے تھکے ہوئے غمزدہ حسین، افواج یزید کو ڈرا اور بھگا سکتے ہیں تو آج کے حسینی آیا ان سے زیادہ تھکے ہوئے یا غمزدہ ہیں۔ حسینیت ڈرنے کا نام نہیں ہے، حسینیوں سے یزیدیوں کو ڈرنا چاہیئے اور یزیدیوں کو دہشت گردی سے اسلحے سے مارنے دھاڑنے سے نہیں ڈرایا جا سکتا بلکہ حسین شناسی سے یزیدیت ڈرتی ہے، حق پرستی سے یزیدیت ڈرتی ہے۔