کیادین سیاست سے جدا ھے؟)مذھبی و غیرمذھبی لوگوں کا نظریہ(



”بے شک جولوگ یتیموں کا مال ناحق چٹ کر جایا کرتے ھیں وہ اپنے پیٹ میں بس انگارے بھرتے ھیں اور عنقریب واصل جھنم ھونگے“

جوشخص اپنے پیٹ کویتیموں کے مال سے بھرتا ھے ا گر چہ وہ ظاھراً کھانا کھاتا ھے او اس سے لذت بھی اٹھاتا ھے لیکن یھی کھانا جو کھارھا ھے اس کے لئے جھنم کا عذاب بن جائے گا ، جس طرح اگر انسان خدا کی عبادت کرنے کے لئے کھانا کھاتا ھے تو ا سکا یھی کھانا آخرت میں ثواب واجر کا باعث ھے اسی طرح اگر انسان خدا کی خوشنودی کے لئے گفتگو کرتا ھے تو جنت میں اس کے لئے ایک درخت لگایا جاتا ھے ۔

حضرت رسول اکرم (ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا: جو شخص بھی تسبیحاتاربعہ پڑھے ، خداوندعالم اس کے لئے جنت میں ایک درخت اُگاتا ھے (یہ سننے کے بعد ) بعض لوگوں نے کھا: تب تو ھمارے لئے جنت میں بھت سے درخت موجود ھوں گے، کیونکہ ھم تسبیحات اربعہ کو مکرر پڑھتے رھتے ھیں،اس موقع پر حضرت رسول اکرم نے ارشاد فرمایا: ٹھیک ھے مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان کو جلانے کے لئے وھاں آگ نہ بھیجو۔

لھٰذا اگر ھمارے اعمال وکردار خدا کی خوشنودی کے لئے ھوں تو آخرت کی سعادت وکامیابی کا سبب ھوں گے، اور اگر ھمارے یھی اعمال خدا کی مرضی کے خلاف ھوں تو آخرت میں بدبختی اور عذاب جھنم کے باعث بنتے ھیں، ایسا نھیں ھے کہ ھماری یہ زندگی دو مستقل حصوں پر مشتمل ھو جس کا ایک حصہ آخرت سے مربوط ھو اور مسجد وعبادتگاھوں میں گذارا جائے او ردوسرا حصہ ھماری دنیا سے مربوط ھو جس کا آخرت سے کوئی سروکار نہ ھو۔

اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ یہ نظریہ (دین کے حدود صرف انفرادی، عبادی مسائل اور عبادتگاہ تک ھوں کہ جس کا ثمرہ آخرت میں ظاھر ھوگا او ردوسرے مسائل دین سے خارج ھیں) آخری چند صدی کے درمیان بعض مغربی لوگوں میںبعض ادیان کے ماننے والوں کی طرف سے رائج ھوا ھے اور اس نظریہ نے بھت سے لوگوں کے ذھن کو پراکندہ کردیا ھے ، اور نہ صرف یہ کہ اسلام میں یہ مطلب موجود نھیں ھے ۔

بلکہ کسی بھی آسمانی برحق دین میں یہ مطلب نھیںپایا جاتا ھے ،ھر برحق دین کا نظریہ یھی ھے کہ انسان کی تخلیق اس وجہ سے ھوئی ھے کہ انسان اپنے لئے سعادت یا شقاوت (بدبختی) کو معین کرے، او رانسان کی ھمیشگی سعادت یا ھمیشگی شقاوت اس دنیاوی زندگی کے زیر سایہ حاصل ھوتی ھے، یعنی اگر انسان کی رفتارو،گفتار الھٰی قوانین کے تحت ھو تو ھمیشگی سعادت اس کے شامل حال ھوگی، او راگر انسان کے کارنامے خدا کی مرضی کے خلاف ھوں تو ھمیشگی شقاوت وبدبختی اس کے دامن گیر ھوگی۔

وہ لوگ جن کا نظریہ یہ ھے کہ دین سے ھماری توقعات کم سے کم ھونی چاھئے، انھوں نے انسانی رفتاروگفتار کو دو حصوں پر تقسیم کیا ھے جس کا ایک حصہ دین سے متعلق ھے اور اس کا دنیا سے کوئی رابطہ نھیں ھے او ر دوسرا حصہ دنیا سے متعلق ھے وہ دین سے خارح ھے، جیسے سیاسی اور اجتماعی مسائل، البتہ یہ نظریہ صرف ایک مغالطہ او رکج فھمی کا نتیجہ ھے، کیونکہ ان کا خیال یہ ھے کہ اگر دین سے ھماری توقعات حداکثر ھو تو پھر ھمارے تمام امور دین کے مطابق ھونا ضروری ھیں یھاں تک کہ کھانا پینا مکان بنانا وغیرہ وغیرہ ،چونکہ انھوں نے یہ سوچا کہ یہ نظریہ نہ تو صحیح ھے اور نہ ھی دین ان تمام چیزوں کو پورا کرسکتا ھے، لھٰذا یہ لوگ دین سے کم سے کم توقعات کے قائل ھوگئے ۔

ان کی یہ غلط فھمی اس وجہ سے ھوئی کہ انھوں نے اس مسئلہ کی صرف دوقسم تصور کی جب کہ تیسری قسم بھی موجود ھے اور یھی تیسری قسم صحیح ھے، اور وہ یہ ھے کہ ھم دین سے اتنی توقع نھیں رکھتے کہ تمام چیزوں کے بارے میں ھمیں بتائے یھاں تک کہ کھانا کھانے ، کپڑے پھننے او رمکان بنانے کا طریقہ بتائے ، کوئی بھی ایسا دعویٰ نھیں کرتا، اور یہ اس لئے ھے کہ دین نے بھت سے مسائل کے بیان کو سمجھنے کے لئے دنیاوی علوم پر چھوڑ دیا ھے ۔

لیکن پھر بھی یہ مسائل کسی نہ کسی اعتبار سے دین سے متعلق ھوتے ھیں ، اور یہ اس وقت ھوگا جب یہ مسائل خود ارزش مند او رپر اھمیت قرار پائیں۔

یعنی ان کے اندر وہ پھلو بھی کار فرما ھوں جو دین سے متعلق ھیں مثلاً کھانا کھانا دینی مسئلہ نھیں ھے لیکن اگر کوئی مررھا ھے ،بھوکا ھے تو اس کو کھانا کھانا واجب ھے، تو اس صورت میں یہ مسئلہ دینی ھوجائے گا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 next