تاریخ انسان میں تحویل و تحول کی بنا پر ایک شبہ



یہ شبہ انسانی تاریخ، تمدن اور کلچر کے تحول و تبدل نیز اجتماعی نظام میں تغییر و تبدیلی کی بنا پر ھوتا ھے، اور یہ طے شدہ بات ھے کہ انسانی اجتماعی زندگی مختلف مرحلوں سے گذری ھے، اور ایک زمانہ میں ”غلامی“ کا مسئلہ رائج تھا.

 

 

 Ø§ÙˆØ± انسانی Ú©ÛŒ ترقی اسی میں سمجھی جاتی تھی کہ کمزور اور ناتوان لوگ دوسروں Ú©ÛŒ غلامی کریں، اور ان Ú©ÛŒ ھر ممکن خدمتگذاری کرتے رھیں، ظاھر سی بات Ú¾Û’ کہ اس زمانے میں انسان Ùˆ خدا جیسا غلام اور آقاکے درمیان ھوتا تھا، کیونکہ اس زمانے میں یہ رائج تھا کہ بعض طاقتور لوگ مولا اور آقا اور بعض کمزور لوگ ان Ú©Û’ بندے اور غلام بن کر رھیں، اور انسانوں Ú©Û’ درمیاں رابطہ بھی عبد اور آقا Ú©Û’ لحاظ سے سمجھا جاتا تھا، اس بنا پر جس طرح ضعیف اور کمزور لوگ عبد اور بندے اور ذلیل Ùˆ پست سمجھے جاتے تھے، اس طرح لوگ خدا Ú©Û’ عبد اور بندے سمجھے جاتے تھے، اور خداوند ان کا مولا Ùˆ آقا، آج جب بندگی اور غلامی کا دور ختم Ú¾Ùˆ چکا Ú¾Û’ØŒ لھٰذا اس وقت کا قیاس اور معیار اس زمانے میں نھیں لانا چاھئیے.

آج انسان کسی بھی زبردستی کو قبول نھیں کرتا، اور اپنے کو آقا سمجھتا ھے نہ کہ بندھ، لھٰذا ھمیں یہ نھیں کھنا چاھیے کہ ھم بندہ ھیں اور خدا مولا، آج ھم خود کو اللہ کا خلیفہ مانیں، اور جو خداکا جانشین ھو اس کو بندگی کا احساس کیسا، گویا خداوند عالم سے خدائی ختم ھو چکی ھے اور یہ حضرت اس کی مسند پر بیٹھے ھوئے ھیں، اور جو چاھیں کریں جس طرح کوئی حاکم کسی کو اپنا قائم مقام بنائے تو وہ اس کے تمام اختیارات کا مالک بن جاتا ھے، اور اس کے کام کے کام ھوتے ھیں اور ان کے درمیان حاکم و فرمانبردار کا رابطہ نھیں ھے، اور قائم مقام کے کاموں کی کوئی باز پرس نھیں ھونا چاھیے.

اس زمانہ میں جبکہ ماڈرن اور جدید تمدن کا دور دورا ھے، اور ھماری زندگی ایک بلند مرتبہ پر پھونچ چکی ھے تو ھم بندگی اور غلامی کی زندگی کے احکام (اطاعت و فرمانبرداری) کو قبول نھیں کر سکتے، اور آقا و مولیٰ کے پیچھے پیچھے گھومتے رھیں، تکلیف اور اطاعت کا زمانہ پیچھے رہ گیا ھے، اور اگر قرآن میں تکالیف اور دوسرے فرمان موجود ھیں تو وہ غلامی کے زمانے کے ھیں، کیونکہ جس وقت رسول اکرم مبعوث ھو ئے، غلامی کا زمانہ تھا، اور اسلام کا پھلا دور، خدا ورسول اور لوگوں کے درمیان رابطہ کیلئے مناسب تھا.

کبھی یہ کھا جاتا ھے کہ انسان تکلیف کا طالب نھیں ھے، لیکن حقوق کا طالب ھے اور اس کے ذھن میں کبھی یہ نھیں آتا کہ اس پر کوئی فریضہ اور ذمہ داری ھے، تاکہ ان کو انجام دے سکے، انسان کو چاھئیے کہ وہ خدااور دوسروں سے اپنے حقوق کو حاصل کرے.

خلاصہ یہ کہ جو لوگ پیغمبر، آئمہ اور ان کے جانشینوں کی اطاعت کا دم بھرتے ھیں یہ چودہ صدی پھلے کسی اجتماعی زندگی کا تھا، جبکہ آج کی اجتماعی زندگی بالکل بدل چکی ھے، اور فرائض اور ذمہ داری کی کوئی بات نھیں کرتا بلکہ انسانی حقوق کی باتیں ھوتی ھیں، انسان کو یہ سمجھانا ضروری ھے کہ تجھے یہ حق ھے کہ جس طرح بھی چاھے زندگی کرے، تجھے اپنی مرضی کے مطابق کپڑے پھننے کا حق ھے، اور جس طرح بھی چاھے اجتماعی زندگی کو بسر کرےْ.

2.ھمارا جواب

ھم مذکورہ اعتراض کا جواب ”تکوینی“ اور ”تشریعی“ لحاظ سے پیش کرتے ھیں، کیونکہ ھمارے سامنے دو مقام ھیں: تکوینی مقام، تشریعی مقام، بعبارت دیگر مقام واقعیت اور ”ھست ھا“(ھے) اور دوسرے مقام تکلیف ”بایدھا“ (ھونا چاھیے) یعنی عالم واقعیات ، اور عالم ارزشھا (قیمت اور اھمیت) (اگرچہ مذکورہ الفاظ کے ایک ھی معنی ھیں، البتہ مختلف لوگوں کو سمجھانے کیلئے مختلف الفاظ ھیں) اب ھمیں یھاں دیکھنا ھے کہ تکوینی لحاظ سے ھماری خدا سے کیا نسبت ھے، کیونکہ اگر کوئی خدا کو مانتا ھی نہ ھو، تو اس کی نظر میں خدا سے کوئی نسبت بے فائدہ ھے.



1 2 3 4 5 6 7 8 9 next