تاریخ انسان میں تحویل و تحول کی بنا پر ایک شبہ



لیکن اگر کوئی شخص خدا پر اعتقاد رکھتا ھو یا کم سے کم یہ قبول کرتا ھو کہ اس کا پیدا کیا ھوا ھے، اور خدا کی خالقیت کو قبول کرتا ھے (خدا کو ماننے کا یہ سب سے کم درجہ ھے) اور اپنے کو خدا کی مخلوق جانتا ھو، البتہ خدا کی خالقیت پر اعتقاد رکھنے سے انسان موحد (خدا کو ایک مانے والا) نھیں بنتا، لھٰذا خدا کی تکوینی اور تشریعی ربوبیت کا قائل ھونا ضروری ھے، توحید در خالقیت کی بنا پر کسی کا یہ کھنا کہ وہ خدا کا بندہ اور اس کا مملوک نھیں ھے خود اس کے خداوند عالم کی خالقیت کے اعتقاد سے ٹکراتا ھے، توحید کا پھلا قدم اپنے کو خدا کی مخلوق تسلیم کرنا ھے، اور ھمارا وجود خدا کا عطا کردہ ھے، اور یہ وھی عبودیت ھے، عبد یعنی مملوک، دوسری کی ملکیت ھونا، لھٰذا اگر کوئی اپنے کو مسلمان اور خدا کا معتقد کھلاتا ھے ، لیکن اپنے کو خدا کی عبودیت اور مملوکیت نھیں مانتا، گویا اس کی گفتگو میں واضح تناقض ھے، کیونکہ خدا پر اعتقاد ھونے کا لازمہ یہ ھے کہ ھم خود کو اس کی مخلوق، عبد اور مملوک سمجھیں، اس وجہ سے تمام مسلمان اپنی بھترین عبادت نماز میں کھتے ھیں ”اشھد انّ محمدًا عبد ہ و رسولہ" اور یہ بات مسلّم ھے کہ انسان کیلئے سب بھترین عظمت اور مقام خدا کا بندہ ھونا ھے، اس وجہ سے خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے:

(سُبْحَانَ الَّذِی اٴسْریٰ بِعَبْدِہ مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاٴَقْصا.)(1)

”وہ خدا (ھر عیب سے) پاک وپاکیزہ ھے جس نے اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام (خانہ کعبھ) سے مسجد اقصیٰ( آسمانی مسجد) تک کی سیر کرائی“

جی ھاں! خدا کی بندگی اور اس کی عبودیت کی اھمیت کے پیش نظر قرآن میں اس خوبصورت لفظ ”عبد“ اور اس کے دوسرے مشتقات کو استعمال کیا گیا ھے، اور انسان کیلئے بھترین اور بلند درجہ کو ”عبودیت“ شمار کیا گیا ھے:

( یَا اٴَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ اِرْجِعِی اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً فَادْخُلِی فِی عِبَادِی)(2)

)”اور کچھ لوگوں سے کھے گا) اے اطمنان پانی والی جان اپنے پر وردگار کی طرف پلٹ آتو اس سے خوش ھے وہ تجہ سے راضی ھے تو میرے (خاص بندوں میں شامل ھوجا“

تشریعی لحاظ سے دوسرا جواب

دوسرا جواب تشریعی لحاظ سے یہ ھے کہ انسان کا آزاد ھونا اور قانون ذمہ داری قبول کرنا آپس میں سازگار نھیں ھے کہ جس کا نتیجہ وحشت ، ظلم و بربریت اور عسرد حرج ھے، اور یہ نتیجہ نکالنا کہ انسان آزاد ھے جس طرح چاھے عمل کر سکتا ھے، اگرچہ اس نے اس قانون کو ووٹ دیا ھو لیکن اس پر عمل کرنے سے انکار کرے،ایسا تو جنگل میں بھی نھیں ھوتا کیونکہ وھاں پر بھی حیوانوں کے عمل کرنے کے لئے خاص قوانین ھوتے ھیں .

لھٰذا جب ھم تمدن اور مدنیت کا دم بھرتے ھیں تو ھمیں قبول کرنا پڑے گا کہ مدنیت کا سب سے پھلا رکن یہ ھے کہ انسان قوانین پر عمل کرنے کا ذمہ دار ھے، اور ذمہ داری اور مسئولیت کو قبول نہ کرنے سے نہ صرف یہ کہ تمدن جدید کا ادعا نھیں کیا جا سکتا، بلکہ اپنے کو وحشی گری کی سب سے نیچی کھائی میں غلطاں پائیں گے.

دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا جائے کہ انسان کی فصل مقوم عقل ھے، اور عقل کا حکم یہ ھے کہ انسان ذمہ داری کو قبول کرے، اور خدا امور کو انجام دینے کا مکلف سمجھے اور بعض چیزوں سے پرھیز کرے، لھٰذا اگر کوئی محلہ اور سڑک پر اپنی مرضی کے مطابق کپڑے پھنے یا لوگوں کے سامنے برھنہ آئے اور جو بھی منہ میں آئے وہ کھتا پھرے، تو اس صورت میں کیا کوئی اس کو عاقل تصور کر سکتا ھے؟ یا اس کو وحشی اور دیوانہ کھا جائے گا؟ اور اگر کوئی اس سے سوال کرے کہ تم ایسے کام کیوںکرتے ھو؟ اب اگر اس کے جواب میں کھے کہ میں چونکہ آزاد ھوں اور آزادی مقوم انسان ھے،لھٰذا میں اپنی مرضی کے مطابق جو چاھوں کروں، توکیا کوئی انسان اس کی ان باتوں کو قبول کر سکتا ھے؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next