تاریخ انسان میں تحویل و تحول کی بنا پر ایک شبہ



لھٰذا چونکہ انسان کی فصل مقوم عقل ھے، اور اس کا عقلی لازمہ یہ ھے کہ انسانی ذمہ داری اور قانون کو قبول کرے، کیونکہ اگر قانون نہ ھو تو مدنیت نھیں ھو سکتی، اور اگر مسئولیت اور ذمہ داری نہ ھو تو انسانیت بھی نھیں آسکتی، انسان کے آزاد ھونے کا مطلب یہ ھے کہ انسان تکویناً انتخاب کی قدرت رکھتا ھے، نہ کہ تشریعاً قانون اور الزام آور اور امکانات کو قبول نہ کرے، اور اپنی اجتماعی زندگی میں کسی حد وحدود کا قائل نہ ھو، پس نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کو یہ نھیں سوچنا چاھیے کہ دین کی ولایت آزادی کے مخالف ھے کیونکہ انسان کی فصل مقوم آزادی ھے جس سے انسان کا خدا کا جانشین ھونا لازم آتا ھے.!

3.گذشتہ اعتراض، ایک دوسرے لحاظ سے

بعض لوگوں کا کھنا یہ ھے کہ چونکہ انسان کی زندگی میں مختلف طریقوں سے ترقی اور پیشرفت ھوتی ھے، اور جیسا کہ انسانی جدید تمدن میں نئے طریقہ کی نظریات اور تفکرات پیدا ھوئے ھیں،ایسی صورت میں دین کو انسانی حقوق بیان کرنے چاھییں، نہ یہ کہ دین تکالیف اور الزام آور احکامات بیان کرے،گذشتہ زمانے میں چونکہ غلامی ، بردگی اور ظلم و جور کا زمانہ تھا اور جو بھی ذمہ داری اور مسئولیت ان کو دی جاتی تھی وہ اس کو قبول کرتے تھے، لیکن آج وہ زمانہ نھیں ھے آج ھر انسان اپنے کوآقا سمجھتا ھے، آج انسان ذمہ داری کو قبول نھیں کرتا بلکہ اپنے حقوق لینا چاھتا ھے.

در حقیقت آج کا ماڈرن زمانہ ھمارے اور گذشتہ (غلامی اور بردگی کو قبول کرنے والے) لوگوں میں ایک بھت بڑی دیوار ھے، جس کا تقاضا یہ ھے کہ آج ماڈرن انسان نے گذشتہ زمانے کی طرح ذمہ داری کو قبول کرنے کو بند کر دیا ھے، اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ھے، آج تکالیف اور ذمہ داری کو قبول کرنے کی باتیں کرنا ماضی کی طرف پلٹتا ھے، آج کے اس زمانے نے جس میںحقوق بشر کا نعرہ لگایا جاتا ھے، ڈیموکراسی کی برکت سے انسان کو استشار اور غلامی کی قید و بند سے آزاد کر دیا ھے، آج کا دور وہ دور ھے کہ جس میں جو ادایان تکالیف اور ذمہ داری کی باتیں کرتے ھیں ان کو بالائے طاق رکہ دیا جائے، اور حقوق بشر کا نعرہ لگانے والے دین کو تلاش کیا جاتا ھے.

اعتراض کرنے والے اپنے ھدف اور مقصد تک پھونچنے کیلئے نیز سماج بالخصوص جوانوں کو اپنے طرف جذب کرنے کیلئے ایسی باتیں کرتے ھیں اور مختلف طریقوں کا سھارا لیتے ھیں اور اپنی باتوں کو خوبصورت و دلنشیں انداز اور مختلف طریقوں سے جاشنی لگا کر پیش کرتے ھیں، لیکن ھم ان بے ڈھنگے سوالوں کا صحیح انداز میں جواب پیش کرتے ھیں.

4.ھمارا جواب

معترض کا مطلق طور پر یہ کھنا کہ آج کا انسان اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ھے، تکالیف و ذمہ داری کا مطالبہ نھیں کرتا، یہ بات بیھودہ اور باطل ھے جیسا کہ فلاسفۂ حقوق بھی کھتے ھین! انسان اس وقت کسی چیز کا مستحق نھیں ھوتا جب تک وہ دوسروں کیلئے کوئی کام انجام نہ دےے، مثال کے طورپر اگر شھری حضرات کو صاف و سالم ھوا میں رھنے کا حق ھے تو دوسرے لوگوں پر ذمہ داری ھے کہ وہ ھوا کو آلودہ اور خراب نہ کریں، پر دوشن نہ پھیلائیں، اس طرح اگر کسی کو اپنے مال میں تصرف کا حق ھے تو دوسروں پر ذمہ داری ھے کہ اس کے مال میں دست درازی نہ کریں، ورنہ اپنے مال سے کوئی بھی بھرہ مند نھیں ھوسکتا، لھٰذا اگر اس کےلئے کوئی حق ثابت ھوتا ھے تو وہ اس کے بدلہ کوئی کام انجام دے، اگر کسی کو یہ حق ھے کہ وہ سماج کی تیار کردہ چیزوں کو استعمال کرے تو اس کی ذمہ داری ھے کہ وہ بھی کسی طریقہ سے سماج کی خدمت کرے، اور مسئولیت و ذمہ داری کو قبول کرے، اور دوسروں پر بار نہ بنے،لھٰذا حق اور تکلیف ایک دوسرے کے لازم وملزوم ھیں، لھٰذا یہ کھنا کہ انسان صرف حقوق کا طالب ھو، اور تکالیف کو قبول نہ کرتا ھو،یہ بات قابل قبول نھیں ھے.

توجہ رکھنا چاھیے کہ الٰھی اور غیر الٰھی تمام دانشمندان اور فلاسفۂ حقوق نے کلی طور پر ذمہ داری اور مسئولیت کی نفی نھیں کی ھے، بلکہ تکالیف اور ذمہ داری پر یقین رکھتے ھیں، جس سے پتہ چلتا ھے کہ معترض کی تکلیف سے مراد الٰھی تکلیف ھے، جس کا نچوڑ یہ ھے کہ خداوند عالم کو ھم پر تکلیف و ذمہ داری نھیں کرنا چاھیے، ورنہ تو ان کی نظر میں حق کے مقابلہ میں تکلیف ھونے سے گریز نا ممکن ھے کیونکہ تکالیف کو تمام عقلا ء اور دانشمندوں نے قبول کیا ھے ھماری بات کی تائید یہ ھے کہ خود انھوں نے صاف صاف کھا ھے کہ عبد اور مولیٰ کے درمیان رابطہ اور مولیٰ کی طرف سے حکم صادر ھونا اور اس کی اطاعت کا ضروری ھونا غلامی اور بردگی کلچر کے مناسب ھے.

5. خدا کی نافرمانی تاریخ کی نظر میں

صرف آج کا ماڈرن انسان ھی خدا کی اطاعت اور تکالیف سے فرار اختیار نھیں کرتا بلکہ تاریخ میں بھت سے ایسے لوگ ھیں جنھوں نے شیطانی وسوسوں کی خاطر خدا کی نافرمانی اور قانون شکنی کی ھے، یہ کھنا کھ:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next