تاریخ انسان میں تحویل و تحول کی بنا پر ایک شبہ



انسان حقوق کا طالب ھے تکالیف کا نھیں، یہ کوئی نئی بات نھیں ھے بلکہ شروع ھی میں حضرت آدم (ء)کے فرزند قابیل نے خدا کی معصیت کی اور کھلے عام تکالیف اور الٰھی قوانین سے سرپیچی کی، اور قانون شکنی کرتے ھوئے اپنے بھائی ھابیل کو قتل کرڈالا.

(وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاٴَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَاناً فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٴَخَرِ قَالَ لَاٴَقْتُلَنَّکَ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ . . . . )(3)

"(اے رسول) تم ان لوگوں سے آدم کے دو بیٹوں (ھابیل وقابیل) کا سچا واقعہ بیان کردوکہ جب ان ددنوں نے خدا کی بارگاہ میں نذر پیش کی تو ان میں سے ایک (ھابیل) کی (نذر تو) قبول ھوآئی اور دوسرے (قابیل) کی (نذر) نہ قبول ھوئی تو (مارے حسد کے ھابیل سے) کھنے لگا میں تجھے ضرورمار ڈالوں گا، اس نے جو اب دیا کہ (بھائی اس میں اپنا کیا بس ھے) خدا تو صرف پرھیزگاروں کی (نذر) قبول کرتا ھے “

قرآن مجید میں پیغمبروں کے واقعات اس بات کی حکایت کرتے ھیں کہ اکثر لوگوں نے اپنے زمانے کے بنی کو جھٹلایا، اور نہ صرف یہ کہ ان کی بات پر لبیک نھیں کھا بلکہ ان پر تھمت و بھتان لگاتے تھے اور ان کا مسخرہ کرتے تھے، یھاں تک کہ ان کو قتل بھی کردیتے تھے، یا ان کو شھر بدر کر دیتے تھے اگر کوئی بنی ان کیلئے مفید باتیں بیان کرتا تھا، مثلاً قرآن کے مطابق لوگوں کو کم فروشی سے روکتا تھا،جیسے قرآن کریم میں ارشاد ھوتا ھے:

(لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اٴَشْیَائَھمْ . . ) (4)

”اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو“ ان کے جواب میں کھتے تھے:

(قَالُوا یَا شُعَیْبُ اٴَصَلَاتُکَ تَاٴْمُرُکَ اَنْ نَتْرُکَ مَا یَعْبُدُ ءَ ابَائُنَا اَوْ اَنْ نَفْعَلَ فِیْ اٴَمْوَالِنَا مانَشَاءُ . . . .)(5)

”وہ لوگ کھنے لگے اے شعیب کیا تمھاری نماز (جسے تم پڑھا کرتے ھو) تمھیں یہ سکھاتی ھے کہ جن (بتوں) کی پرستش ھمارے دادا کرتے آئے ھیں انھیں ھم چھوڑ بیٹھیں،یا ھم اپنے مالوں میں جو کچھ چاھیں کر بیٹھیں“

ممکن ھے اس موقع پر کوئی کھے کہ تاریخ میں انبیاٴ و اولیا ٴ الھی کے مقابلے کی وجہ بت پرستی، شرک اور شیطان کی پیروی تھی اور ھمارا کھنا تو یہ ھے کہ انسان کسی بھی معبود کی اطاعت کی طوق اپنی گردن سے نکال دے، اور بتوں اور شیطان کی پیروی بھی نہ کرے، لیکن یہ کھنا بھی اولیاٴ الٰھی کی نظر میں باطل اور مردود ھے،کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ھے کہ وحی الٰھی کے مطابق انسان ایسے راستہ پر پھونچ جاتا ھے کہ یا خدا کی اطاعت کرے یا طاغوت (شیطان) کی اطاعت کرے، اور وہ کسی کی بھی اطاعت نہ کرے اس کے لئے محال، اور اگرکوئی یہ نعرہ لگائے کہ میں کسی کا بندہ اور غلام نھیں ھوں، در حقیقت ایسا شخص طاغوت اور اپنی ھوائے نفس کا غلام ھوتاھے اس وجہ سے قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

(اَللَّہ وَلِیُّ الَّذِیْنَ ءَ امَنُوا یُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلٰی النُّورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا اٴَوْلِیَاوٴُھُمُ الطَّاغُوتَ



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next