تاریخ انسان میں تحویل و تحول کی بنا پر ایک شبہ



(وَمَا خَلَقْتُ الجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ..)(13)

”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اسی غرض سے پیدا کیا ھے کہ وہ میری عبادت کریں“

اور چونکہ خداوند عالم کی عبادت نظام خلقت و ھستی کے ھمنوا ھے اور خداوند عالم کی تکالیف کو انجام دینا اور الٰھی وظیفہ و مسئولیت پر عمل کرنا نیز اس خالق کا شکر ادا کرنا خود ایک مھربانی ھے کہ جو ھم کو حیات و زندگی عطا کرتا ھے اور اس کی عنایت اور لطف و کرم سے ھم کو صحت و سلامتی اور دوسری بھت سی نعمتیں عطا کی گئی ھیں جیسا کہ خداوند عالم حضرت ابراھیم علیھم السلام کی زبانی فرماتا ھے:

(اَلَّذِی خَلَقَنِی فَھُوَ یَھْدِیْنِ، وَالَّذِی ھُوَ یُطْعِمُنِی وَیُسْقِیْن، وَاِذَا مَرَضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ، وَالَّذِی یُمِیْتُنِی ثُمَّ یُحْیِیْنِ.). (14)

”جس نے مجھے پیدا کیا (وھی میرا دوست ھے) پھر وھی میری ھدایت کرتا اور وہ شخص جو مجھے (کھانا) کھلاتا ھے او رمجھے (پانی) پلاتا ھے اور جب بیمار پڑتا ھوں تو وھی مجھے شفا عنایت فرماتا ھے اور وہ شخص جو مجھے ما ڈالے گا اس کے بعد(پھر) مجھے زندہ کرے گا“

کس طرح خدا کی اطاعت سے انکار کیا جا سکتا ھے، اور کیا واقعاً یہ حق وانصاف سے بعید نھیں ھے کہ ھم یہ کھیں کہ اب ماڈرن انسان تکالیف و اطاعت کا تابع نھیں ھے، اور اپنے حقوق کا طالب ھے؟

کیا اسلام اس فلسفہ کو قبول کر سکتا ھے؟ واقعا ً ایسے نظریہ کااسلامی ھونا تو دور کی بات،یہ تو عقل اور انسانیت سے بھی خالی ھے.

حوالہ

(1)سورہ اسراء آیت1

(2)سورہ فجر آیت27،29



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next