امام حسین علیہ السلام مدینہ میں



[6] عبد اللہ بن زبیرپھلی یا دوسری ھجری میںمتولد ھوا۔جب عثمان کا گھر اوٴ  ھوا تھا تو اسی Ù†Û’ عثمان Ú©ÛŒ مدد Ú©ÛŒ یھاں تک کہ خود مجروح ھوگیا Û” ( طبری، ج ۴،ص Û³Û¸Û²) یہ کا Ù… اس Ù†Û’ اپنے باپ زبیر Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… پر انجام دیا تھا Û”(طبری ،ج۴،ص۳۸۵) اور عثمان Ù†Û’ زبیر سے اس Ú©Û’ سلسلہ میں ایک وصیت Ú©ÛŒ تھی۔ (طبری ،ج۴،ص۴۵۱) یہ اپنے باپ Ú©Û’ ساتھ جنگ جمل میں شریک تھا۔اور اس Ú©Ùˆ حق Ú©ÛŒ طرف پلٹنے اور تو بہ کر Ù†Û’ سے روکا تھا۔ (طبری ،ج۴،ص ÛµÛ°Û² ) عائشہ Ù†Û’ اسے بصرہ Ú©Û’ بیت المال کا امیر بنا یا تھاکیو نکہ یہ عائشہ کا مادری بھا ئی تھا جس کا نام”ام رومان“ تھا (ج۴،ص Û³Û·Ûµ)پھر یہ زخمی ھوا اور وھا Úº سے بھاگ نکلا پھرٹھیک ھوگیا Û”(ج۴،ص۵۰۹) حضرت علی علیہ السلام Ù†Û’ اسے” برائیوں Ú©Û’ فرزند“ Ú©Û’ نام سے یاد کیا Ú¾Û’Û” (ج۴،ص۵۰۹) یہ معاویہ Ú©Û’ ساتھ تھا تو معاویہ Ù†Û’  عمر وعاص Ú©Û’ ھمراہ اسے محمدبن ابی بکر سے جنگ Ú©Û’ لئے بھیجا ۔جب عمروعاص Ù†Û’ محمد Ú©Ùˆ قتل کر Ù†Û’ کا ارادہ کیا تو اس Ù†Û’ محمد Ú©Û’ سلسلے میں سفارش Ú©ÛŒ لیکن معاویہ Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ سفارش قبول نھیں Ú©ÛŒ (طبری، ج ۵،ص Û±Û°Û´) امام حسین علیہ السلام Ú©ÛŒ شھادت Ú©Û’ بعد یہ مکہ Ù†Ú©Ù„ گیا (طبری ،ج۵،ص Û´Û·Û´) اور Û±Û² / سال تک وھاں ان لو Ú¯ÙˆÚº سے لڑتا رھا یھاں تک کہ عبد الملک بن مروان Ú©Û’ زمانے میں جمادی الاولی Û·Û³ ھمیں حجاج Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ قتل کر دیا۔(ج۶ ،ص Û±Û¸Û· ) اس Ú©Û’ ایک سال قبل اس کا بھا ئی مصعب” انبار“ نامی جگہ پر قتل ھوا جس Ú©ÛŒ طرف خود عبدالملک Ù†Û’ اقدام کیا تھا۔

[7] اسد ا لغابہ میں Ú¾Û’ کہ عبدالرحمن بن ابی بکر یزید Ú©ÛŒ بیعت Ú©Û’ مطالبہ سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ Ú¾ÛŒ مدینہ سے Ù†Ú©Ù„ گئے تھے اور حبشی نامی جگہ پر وفات Ú¾Ùˆ Ú†Ú©ÛŒ تھی جو مکہ سے Û±Û° / میل Ú©Û’ فاصلہ پر Ú¾Û’Û” یہ واقعہ  ÛµÛµ Ú¾ کا Ú¾Û’ لہٰذا یہ بات معاویہ Ú©ÛŒ وصیت سے یہ موا فقت نھیں رکھتی Ú¾Û’ØŒ واللہ اعلم Û”

[8] اس کا اندازہ اس سے ھو تا ھے جیسا کہ یعقوبی نے روایت کی ھے کہ اھل عراق نے امام علیہ السلام کو اس وقت خط لکھا جب آپ مدینہ میں تھے اور امام حسن علیہ السلام شھید ھو چکے تھے۔ اس خط میںتحریر تھا کہ وہ لوگ امام علیہ السلام کے حق کے لئے قیام کے منتظر ھیں۔ جب معاویہ نے یہ سنا تو اس پر اس نے امام علیہ السلام کی مذمت کرنے کی کو شش کی ۔ امام علیہ السلام نے اس کی تکذیب کی اور اس کو خاموش کردیا ۔

[9] یہ بات پو شیدہ نھیں رھنی چا ہئے کہ امیر شام Ù†Û’ یہ کھا تھا کہ” فان خرج علیک فظفرت “، یعنی  اگر وہ خروج کریں تو ان Ú©Û’ ساتھ فتح وظفر تک لڑتے رھنا لیکن قتل نہ کر نا۔ اس طرح وہ دو خوبیوں Ú©Ùˆ جمع کر نا چاھتا تھا؛ ایک فتح وظفر دوسرے انتقام نہ لینا ۔اس مطلب پر معاویہ کا وہ خط دلالت کر تا Ú¾Û’ جو اس Ù†Û’ امام حسین علیہ السلام  سے جنگ کرنے Ú©Û’ سلسلے میں لکھا تھا اور اپنے غلام سر جون رومی Ú©Û’ پاس امانت Ú©Û’ طور پر رکھو ایا تھا؛ جس میں اس Ù†Û’ یہ لکھا تھا کہ اگر عراق میں حالات خراب ھونے لگیں تو فوراًابن زیاد Ú©Ùˆ وھاں بھیج دینا؛ جیسا کہ آئندہ اس Ú©ÛŒ روداد بیان Ú¾Ùˆ Ú¯ÛŒ Û”

[10] اس کی روایت خوارزمی نے اپنی کتاب کے ص۱۷۵ پر کچھ اضافے کے ساتھ کی ھے ۔

[11] طبری ،ج ۵،ص ۳۲۴پر ھشام بن محمد کا بیان Ú¾Û’ اور ص Û³Û³Û¸Û” پر ھشام بن محمد ابو مخنف سے نقل کرتے ھیں کہ  ماہ رجب Û¶Û° Ú¾ میں یزید Ù†Û’ Ø­Ú©Ùˆ مت Ú©ÛŒ باگ ڈور سنبھالی Û”

[12] ضحاک بن قیس فھری جنگ صفین میں معاویہ Ú©Û’ ھمرا ہ تھا۔ وھاں معاویہ Ù†Û’ اسے پیادہ یا قلب لشکر کا سر برا ہ بنا یا تھا۔ اس Ú©Û’ بعد اپنی حکومت میں جزیرہ” حران“ کا والی بنایا ۔وھاں پر عثمان Ú©Û’ چاھنے والے کوفہ وبصرہ سے اس Ú©Û’ ارد گرد جمع ھونے Ù„Ú¯Û’Û” اس پر علی علیہ السلام Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ طرف مالک اشتر نخعی Ú©Ùˆ روانہ کیا اور Û³Û¶Ú¾ میں جناب مالک اشتر Ù†Û’ اس سے جنگ Ú©ÛŒ ،پھر معاویہ Ù†Û’ دمشق میں اسے اپنی پولس Ú©ÛŒ سربراھی پر مقرر کردیایھاں تک کہ  ۵۵ھمیں جب یزید Ú©ÛŒ ولی عھدی Ú©ÛŒ بیعت لینے کا ارادہ کیا تو اسے کوفہ بھیج دیا ۔پھر ÛµÛ¸Ú¾ میں اسے کوفہ سے واپس بلا کر دوبارہ پولس کا سربراہ بنا دیا۶۰ ھتک وہ اس عھدے پرمقرر رھا یھاں تک کہ بصرہ سے عبیداللہ بن زیاد کا ایک گروہ وفد Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ میں وھاں پھنچا اور معاویہ Ù†Û’ ان لوگوں سے اپنے بےٹے یزید Ú©ÛŒ بیعت Ù„ÛŒ Û”( مسعودی ،ج۲،ص۳۲۸) 

ان واقعات کی طبیعی مسیر سے یہ اندازہ ھوتا ھے کہ یہ ملعون اس وقت تک اپنے منصب پر باقی تھا جب آل محمد کا قافلہ شام پھنچا ھے۔ ۶۴ھ میں معاویہ بن یزید مر گیا توپھلے ضحاک نے لوگوں کو اپنی طرف بلایا پھر لوگوں کو ابن زبیر کی طرف دعوت دی یھاں تک کہ جب مروان مدینے سے اور عبید اللہ بن زیاد عراق سے شام پھونچے تو ابن زیاد نے مروان کو خلافت کی لالچ دلائی لہٰذا مروان نے لوگوں کو اپنی طرف بلایا اور لوگوں نے مروان کی بیعت کر لی ،اس پر ضحاک دمشق میں متحصن ھوگیا پھر وھا ں سے نکل کر مقام ”مرج راھط“( دمشق سے چند میل کے فاصلہ )پر مروان سے جنگ پر آمادہ ھوگیا۔ ۲۰ /دنوں تک یہ جنگ چلتی رھی۔ آخر کار ضحاک کے ساتھی بھاگ کھڑے ھوے اوروہ خود ماراگیا۔ اس کا سرماہ محرم ۶۴ھیا ۶۵ھمیں مروان کے پاس لایا گیا۔ (طبری ،ج ۵،ص ۵۳۵،۵۴۴)یہ شخص اتنا ملعون تھا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام ھر نماز کے قنوت میں اس پر لعنت بھیجا کرتے تھے۔(طبری ،ج ۵،ص ۷۱ووقعةصفےّن، ص ۶۲)

[13] طبری نے وصیت کو اسی طرح نامہ بر کے حوالے سے لکھا ھے کہ نامہ بر یزید تک پھنچا لیکن یزید نے کب سفر کیا اور کھاں غائب تھا اس کا کوئی ذکر نھیں کیا۔ طبری نے ھشام سے اور اس نے عوانہ بن حکم (متوفیٰ۱۵۷ ھ)سے اس طرح روایت نقل کی ھے کہ یزید غائب تھا تو معاویہ نے ضحاک بن قیس جو اس وقت اس کی پولس کا سربراہ تھا اور مسلم بن عقبہ مری جس نے مدینہ میں واقعہ حرہ کے موقع پر یزید کے لشکر کی سربراھی کی تھی ، کو بلایا اور ان دونوں سے وصیت کی اور کھا : تم دونوں یزید تک میری یہ وصیت پھنچادینا۔

[14] طبری ،ج۵،ص۳۲۷ ۔یہ روایت ھشام بن محمد سے ابی مخنف کے حوالے سے نقل ھوئی ھے کہ ابو مخنف نے کھا کہ مجھ سے عبد الملک بن نوفل بن مساحق بن عبداللہ بن مخرمہ نے روایت کی ھے کہ اسی نے کھا :” لما مات معاویہ خرج ۔۔۔“جب معاویہ کو موت آئی تو وہ نکلا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 next